Updated: March 07, 2025, 10:10 PM IST
| Washington
امریکی صدر ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے تحت امریکی ویزے کے خواہش مند درخواست گزاروں کے اب سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی جانچ کی جائے گی ، تاکہ فلسطین ، اور حماس حامی افراد کو الگ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ اے آئی کی مدد سے بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی پڑتال کرے گی۔
امریکہ میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے کا ایک منظر۔ تصویر : آئی این این
امریکی صدر ٹرمپ نے سیکورٹی کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطین حامی غیر ملکی امریکی شہریت کے حامل افراد کو امریکہ کیلئے خطرہ قرار دے کران کی شہریت ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کئے ہیں۔اس کے علاوہ طالبعلم ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کے بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی جانچ کی جائے گی، اور اس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے درخواست گزار افراد کے پوسٹ کی جانچ کی جائے گی۔اس پالیسی کے تحت، امیگریشن افسران سوشل میڈیا ہینڈلز کی درخواست کریں گے لیکن درخواست دہندگان سے پاس ورڈز فراہم کرنے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ یہ اقدام ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو امریکہ میں داخلے، مستقل رہائش، یا شہریت کے خواہاں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: سی اے آئی آر کی مسلم تارکین وطن سے اپیل، پابندی کے اطلاق سے قبل ملک نہ چھوڑیں
رپورٹس کے مطابق، یہ نیا ضابطہ سالانہ۳۵؍ لاکھ سے زیادہ امیگریشن درخواست دہندگان کو متاثر کر سکتا ہے۔ داخلی حفاظتی محکمہ نے اس پالیسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے۶۰؍ دن کی عوامی تبصرہ کی مدت فراہم کی ہے۔ اگراسے نافذ کیا جاتا ہے، تو ۹؍اہم امیگریشن زمروں میں درخواست دہندگان کو اپنی درخواستوں کے حصے کے طور پر اپنے سوشل میڈیا کی معلومات جمع کرانی ہوں گی۔
۲۰۱۷ء میں، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت، ایکسٹریم ویٹنگ پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کے تحت ویزا درخواست دہندگان کیلئے سوشل میڈیا چیک لازمی کردیا گیا۔۲۰۱۹ء میں، امریکی محکمہ خارجہ نے اس ضرورت کو تقریباً تمام ویزا درخواست دہندگان تک بڑھا دیا۔۲۰۲۱ء تک، سوشل میڈیا اسکریننگ کو چین اور روس جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے پلیٹ فارم تک بھی بڑھا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینیوں نے اسرائیل کے ذریعے ۶۰۰؍ لاشوں کو روکنے کی جانب توجہ دلائی
امریکی خبروں کے ادارے ایکسیوس کے مطابق، حکام غیر ملکی طلبہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے تاکہ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو اسرائیل پر حملے کے بعد فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کیلئےہمدردی کے اظہار کے ثبوت تلاش کیے جا سکیں۔ وہ یہ بھی جانچنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کیا گزشتہ انتظامیہ کے دوران کسی ویزا ہولڈر کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن پھر بھی امریکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ اسرائیل مخالف مظاہروں اور یہودی طلبہ کی جانب سے دائر کی گئی قانونی چارہ جوئی کی خبروں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جہاں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ غیر ملکی طلبہ نے یہود مخالف اقدامات میں حصہ لیا ہے لیکن انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ایک عہدیدار نے کہا کہ اگر حکام کو کسی غیر ملکی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ نظر آتی ہے جو اسرائیل پر حملے کی حمایت کرتی ہو اور حماس نواز نظر آتی ہو، تو یہ ان کا ویزا منسوخ کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔