• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۶؍ برسوں میں ۹۶۰۰؍ سے زائد بچے بالغ جیلوں میں قید ہیں: آر ٹی آئی میں انکشاف

Updated: July 14, 2024, 4:30 PM IST | New Dehli

یہ رپورٹ کُل۵۷۰؍ میں سے۲۸۵؍ ضلعی اور مرکزی جیلوں سے موصولہ جوابات پر مبنی ہے۔ اس میں ۷۴۹؍ ایسی جیلیں شامل نہیں ہیں جن سے اعدادوشمار اکٹھا نہیں کئے گئے ہیں۔ ان میں سب جیلیں، خواتین کی جیلیں، اوپن جیلیں، خصوصی جیلیں، بورسٹل اسکولز اور دیگر قسم کی جیلیں بھی شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

حق معلومات قانون(آرٹی آئی) کے ذریعہ حاصل کردہ سرکاری ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یکم جنوری ۲۰۱۶ء سے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کے درمیان کم از کم ۹۶۸۱؍ بچوں کو ملک بھر کے بالغ جیلوں میں غلط طریقے سے قید کیا گیا۔ iProBono کی طرف سے ۱۱؍مئی کو شائع ہونے والی رپورٹ، Incarceration Of Children in Prisons in India، میں کہا گیا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ آر ٹی آئی کا صرف ۵۰؍ فیصد جواب ملا ہے۔ دو بڑی ریاستوں، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال (۲۰۲۲ءکے اعداد و شمار کی بنیاد پر، بچوں کے جیلوں میں قید کے معاملے میں بالترتیب تیسرےاورچھٹے نمبر ہے)، ناگالینڈ، اور ایک یو ٹی – لداخ نےآر ٹی آئیز کا جواب نہیں دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ تر دیگر ریاستوں سے، ہمیں صرف جزوی جوابات موصول ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں ریاستی جیل کے محکموں کی طرف سے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت انکشاف کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ’’بڑی غلطیوں ‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’رفح پر اسرائیل کے حملے سے حماس کا خاتمہ نہیں ہوگا‘‘

یہ رپورٹ کل۵۷۰؍ میں سے۲۸۵؍ ضلعی اور مرکزی جیلوں کے جوابات پر مبنی ہے۔ اس میں وہ۷۴۹؍ دیگر جیلیں بھی شامل نہیں ہیں جن سے ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا، جن میں سب جیلیں، خواتین کی جیلیں، اوپن جیلیں، خصوصی جیلیں، بورسٹل اسکولز اور دیگر جیلیں شامل ہیں۔ ’’مکتوب ‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے، سرکردہ محقق اور رپورٹ کی مصنفہگیتانجلی پرساد نے کہا کہ ڈیٹا صرف حقیقت کا ایک چھوٹا سا تناسب ہے۔ اس میں شامل ہر عدد بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ، جس میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جن کی کامیابی سے شناخت کی گئی تھی، فرض کیا گیا ہے کہ ہر سال اوسطاً ۱۶۰۰؍سے زائد بچوں کو ملک بھر کی جیلوں سے باہر منتقل کیا گیا۔ اس مطالعہ میں جووینائل جسٹس بورڈز (جے جے بی) پر بھی غور کیا گیا جو اپنے متعلقہ اضلاع میں جیلوں کا دورہ کرکے اور ان قیدیوں کی شناخت کر کے بالغ جیلوں میں بچوں کی قید کو روک سکتے ہیں۔ 
اتر پردیش میں ۲۹۱۴؍بچوں کو بالغ جیل سے جوینائل ہوم میں منتقل کیا گیا، جو اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ تمام پانچ مرکزی جیلوں اور۶۱؍ ضلعی جیلوں میں سے۴۲؍ (۷۱؍ فیصد) نے آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیا۔ ضلع جیل گورکھپور میں جے جے بی کے دوروں کے باوجود۶؍ برسوں میں سب سے زیادہ تعداد (۲۹۴؍) بچوں کو منتقل کیا گیا۔ پانچ سنٹرل جیلوں میں سے، صرف سینٹرل جیل نینی نےپورے عرصے میں ۲۰۳؍ بچوں کو منتقل کیا اور وہاں ۳؍ جے جے بی کے دورے کئے گئے۔ ضلع جیل بدایوں میں، جے جے بی نے ۶؍ برسوں میں ۶۸؍ سی سی ایل کی نشاندہی کی، لیکن کوئی منتقلی نہیں کی گئی۔ ۵۱؍ ضلعی جیلوں میں سے جنہوں نے جواب دیا، اعداد و شمار کی بنیاد پر صرف۹؍ جیلوں میں دورےکئے گئے۔ باقی میں جے جے بی کا کوئی دورہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بچوں کو منتقل کیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا الیکشن : وزیراعظم نریندر مودی نے وارانسی سے پرچہ نامزدگی داخل کیا

بہار، بچوں کو غلط طریقے سے قید میں رکھنے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں ۱۵۱۸؍ بچوں کو منتقل کیا گیا، جس میں آر ٹی آئی کے۳۴؍ فیصد جوابات کا استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ بہار کی۴۲؍ مرکزی اور ضلعی جیلوں میں سے صرف \۱۵؍نے آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیا، جس میں ایک مرکزی جیل بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ، پانچ سب جیلوں سے بھی جوابات موصول ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے جنوری ۲۰۲۲ء میں اپنے حکم میں نوٹ کیا کہ دہلی حکومت کی عرضی کی بنیاد پر، قانون سے متصادم تقریباً ۸۰۰؍ بچوں (CCLs) کو گزشتہ ۵؍ برسوں میں جیلوں سے جوینائل ہومس میں منتقل کیا گیا تھا۔ پرساد نے کہا کہ یہاں تک کہ دہلی میں ہم نے پایا کہ گرفتاری کے میمو میں عمر کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ اگر دہلی ایسی ہے تو کوئی دوسری ریاستوں کی صورت حال کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ 

ریاستی احتساب کا مطالبہ
واضح رہے کہ جووینائل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ ایکٹ، ۲۰۱۵ء اورجے جے ایکٹ، ۲۰۱۵ء) قانونی طور پر یہ حکم دیتا ہے کہ ایک بچہ، جو ابھی ۱۸؍ سال کا نہیں ہوا ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے، یا کسی جرم کا مرتکب پایا گیا ہے، اسے آبزرویشن ہوم یا پلیس آف سیفٹی، یا اسپیشل ہوم یا پلیس آف سیفٹی میں رکھا جائے۔ وکلاء نے اس کی اہم وجہ کے طور پر غلط پولیس کارروائی کا حوالہ د یا ہے۔ رپورٹ ریاستی احتساب اور قید میں بند بچوں کیلئے معاوضے پر زور دیتا ہے۔ اگر افسران کی جانب سے جان بوجھ کر غلط بیانی کا انکشاف ہوا ہے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ نابالغوں کیلئے ایک اہم چوکی چیف میڈیکل آفیسر (سی ایم او) ہو۔ ماڈل جیل مینول میں کہا گیا ہے کہ جب کسی ملزم کو جیل میں داخل ہونے سے پہلے ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تو سی ایم او مشتبہ کم عمری کا نوٹس لے سکتا ہے اور اس کے بعد معاملہ متعلقہ عدالت کو بھیج دیا جائے گا۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف۳۱۱؍ آبزرویشن ہومس، ۳۹؍ اسپیشل ہومس اور۳۶؍ سیفٹی پلیسس تھے، جو ملک کے نصف سے بھی کم اضلاع میں دستیاب سی سی ایلز کی بحالی کیلئے درکار بنیادی ڈھانچے کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے جیلوں میں بچوں کو قید کرنے میں مدد ملتی ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ دہلی کی جیلوں میں جے جے بی کا دورہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ممبران کو لگتا ہے کہ یہ غیر ضروری ہے کیونکہ این سی پی سی آر پہلے ہی اس مشق کا انعقاد کر رہا ہے۔ بتا دیں کہ اعداد و شمار میں انڈمان اور نکوبار جزائر، دادرا اور نگر حویلی، دمن اور دیو، اور لکش دیپ کے مرکزی زیر انتظام علاقوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہاں ضلع اور مرکزی جیل نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK