• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شملہ: پر تشدد مظاہروں میں شامل بی جے پی اور وی ایچ پی کے۵۰؍ ارکان کے خلاف مقدمہ

Updated: September 16, 2024, 7:15 PM IST | Shimla

ہماچل پردیش کے شملہ کے سنجولی علاقے کی ایک قدیم مسجد کی بالائی منزلوں کے انہدام کا شر انگیز مطالبہ کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کے ارکان نے علاقے کے ماحول کو خراب کرنے کیلئے منصوبہ بند پرتشدد احتجاج کیا، اس میں شامل ۵۰؍ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

A scene from the Shimla demonstration. Photo: INN
شملہ مظاہرے کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ہماچل پردیش میں گزشتہ ہفتہ ہوئے پر تشدد مظاہروں میں شامل بی جے پی اور وشوا ہندوپریشد سے وابسطہ کم از کم ۵۰؍ افراد کے خلاف ۸؍ معاملے درج کئے گئے ہیں۔ یہ مظاہرے شملہ کے سنجولی علاقے کی ایک قدیم مسجد کی بالائی منزلوں کو غیر قانونی بتاکر اس کے انہدام کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوئے تھے، جس نے تشدد کی شکل اختیار کرلی۔۱۱؍ ستمبر کو پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پانی کی بوچھار، اور لاٹھی چارچ کیا تھا۔پی ٹی آئی کے مطابق اس مظاہرے میں دس افراد جن میں پولیس اہلکار اور خواتین شامل تھیں زخمی ہو گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے: شنگناپور پنچایت میں مسلم ووٹروں کا اندراج نہ کرنے کی قرارداد منظور

شملہ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیو گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ ۵۰؍ سے ۶۰؍ افراد کی پہچان کی گئی ہے، جو دوران مظاہرہ حکم انتناعی کی خلاف ورزی، پتھر بازی، اور پولیس پر حملے میں شامل تھے۔ واضح رہے کہ شملہ انظامیہ نے۱۰؍ ستمبر کو ہندو انتہا پسندوں کے احتجاج کے مد نظر سنجولی میں حکم امتناعی نافذ کیا تھا گاندھی کے مطابق مشتبہ افرادکو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے جاری ہیں،جن میں سے کچھ فرار ہیں۔جبکہ کئی افراد ایسے ہیں جن کے نام ایک سے زائد ایف آئی آر میں درج ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس احتجاج میں کئی کونسلروں نے بھی شرکت کی تھی، جبکہ وشو ہندو پریشد کے کئی رضاکاروں پر اس سے قبل بھی احتجاج کے سلسلے میں مقدمات درج ہیں۔گاندھی نے یہ بھی کہا کہ پولیس سولن، سرمور اورکانگڑاکے پولیس محکمہ سے بھی مدد حاصل کر رہی ہے جہاں سے ان مشتبہ افراد کا تعلق ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ناگپور: ’پیغمبر فار آل‘ کے تحت انجمن انجینئرنگ کالج میں سیرت ایکسپو کا انعقاد

مظاہرین کے خلاف بھارتیہ نیا ئے سنہتہ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جن میں مذہب کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینے، عبادت گاہ پر حملہ، غیر قانونی اجتماع،، مجرمانہ سازش اور حملہ، مذہب کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے، سرکاری احکامات کی نافرمانی، اور سرکاری ملازم پر حملہ شامل ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق وشو ہندو پریشد نے ان تمام ملزمین کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 
پولیس کے مطابق یہ احتجاج علاقے کے ماحول کو خراب کرنے کی منصوبہ بند سازش تھی۔جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس پورے واقع کو ڈال کر عوام کو اکسانے کی کوشش کی۔گاندھی نے مزید کہا کہ ’’ ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح ایک ٹیمپو پر کھڑے ہو کر عوام کو دفعہ ۱۶۳؍ کی خلاف ورزی کرنے پر اکسارہا ہے۔ساتھ میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ہمیں احتجاج کیلئے کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔‘‘ 

۱۲؍ ستمبر کو مسلم ویلفر کمیٹی نے شملہ میونسپل کمشنر بھو پیندر اتری سے ملاقات کرکےعلاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ازخود مسجد کی بالائی منزلوں کو منہدم کرنے کی پیش کش کی تھی۔جبکہ عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے کی اگلی شنوائی۵؍ اکتوبر کو ہوگی۔ ۴؍ ستمبر کو اسمبلی میں اس مسجد کے تعلق سے ریاست میں بر سراقتدارکانگریس کے ریاستی وزیر انیرودھ سنگھ اور ان کے ساتھی ہریش جنارتھا کے مابین بحث ہو گئی تھی۔۷؍ ستمبر کو ہماچل پردیش وقف بورڈ نے عدالت سے کہا کہ مسجد وقف کی ملکیت ہے، اور تنازعہ اس کے اضافی منزلوں کی تعمیر کے تعلق سے ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK