جنوبی کوریا کی مصنفہ ہان کانگ، جو اس سال ادب کے نوبل انعام کی فاتح ہیں، نے جمعہ کو کہا کہ وہ اپنے ملک میں مارشل لا کے اعلان سے حیران رہ گئی ہیں۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 1:53 PM IST | Inquilab News Network | Stockholm
جنوبی کوریا کی مصنفہ ہان کانگ، جو اس سال ادب کے نوبل انعام کی فاتح ہیں، نے جمعہ کو کہا کہ وہ اپنے ملک میں مارشل لا کے اعلان سے حیران رہ گئی ہیں۔
جنوبی کوریا کی مصنفہ ہان کانگ، جو اس سال ادب کے نوبل انعام کی فاتح ہیں، نے جمعہ کو کہا کہ وہ اپنے ملک میں اس ہفتے کے مارشل لا کے اعلان سے حیران رہ گئی ہیں۔اسٹاک ہوم کی ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے سیاسی بحران کے دوبارہ کوریا میں لوٹنے پراپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح انہوں نے اپنی کتاب ’’ہیومن ایکٹس‘‘ کیلئے ۱۹۹۷ءمیں اپنے ملک میں نافذ مارشل لاء کا مطالعہ کیا۔ یہ کتاب ۱۹۸۰ءمیں ان کے پیدائشی شہر گوانگجو میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کے بعد ترتیب دی گئی تھی جس میں تقریباً ۲۰۰؍افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔حالیہ مارشل لاء کے نفاذ کے اعلان نے کوریائی عوام کے ذہنوں میں اس سے قبل کے مارشل لاء کی یاد تازہ کردی۔
یہ بھی پڑھئے: برطانوی سکھ آرٹسٹ جسلین کور نے ٹرنر پرائز جیتا، فلسطین کی حمایت کا اظہار کیا
۵۴؍سالہ نے ایک مترجم کے ذریعے کہا کہ ’’اس رات سب کی طرح، مجھے بھی شدید صدمہ پہنچا، میرے لیے ۲۰۲۴ءمیں میری آنکھوں کے سامنے ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ کرنااذیت ناک تھا۔ جنوبی کوریا کی پہلی مصنفہ جنہوں نے ادب کا ایوارڈ حاصل کیاانسانی بحران، تشدد، اور جنوبی کوریا کی جدید تاریخ کے سفاک لمحات کو قلمبند کیا۔ واضح رہے کہ صدر یون سک یول کے مارشل لاء کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی بھاری اسلحوں سے لیس فوجیوں کو سڑکوں پر بھیج دیا گیا۔ لیکن پارلیمنٹ نے کچھ ہی گھنٹوں میں انہیں یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔اور اب انہیں مواخذے کا سامنا ہے۔حزب اختلاف کی جماعتیں سنیچر کو مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے زور دے رہی ہیں، جسے آئینی عدالت میں جانے کیلئے قومی اسمبلی کے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہے، جو یون کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرے گی۔
یہ بھی پڑھئے: صدر یون کو معطل کیا جانا چاہئے: جنوبی کوریا کی حکمراں پارٹی
دنیا میں چل رہے مسائل کے سبب وہ اعزاز کی خوشی سادگی سے منائیں گی۔ایک مترجم کے توسط سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ کیا اب دنیا میں کوئی امید باقی ہے، ہاں امید کی امید کرنا ہی ایک امید ہے۔ ‘‘