بدھ کو گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کے بعد، صدر کو حکومت کے ماتحت ایک خودمختار ایجنسی نے گرفتار کیا ہے جو اعلیٰ عہدیداران کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: January 15, 2025, 8:55 PM IST | Inquilab News Network | Seoul
بدھ کو گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کے بعد، صدر کو حکومت کے ماتحت ایک خودمختار ایجنسی نے گرفتار کیا ہے جو اعلیٰ عہدیداران کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرتی ہے۔
مواخذہ کا سامنا کر رہے جنوبی کوریائی صدر یون سک یول کو پولیس نے بدھ کو گرفتار کرلیا۔ انہیں ملک میں مارشل لاء لگانے کی کوشش کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جنوبی کوریا کے کسی صدر کو اس کے دور صدارت کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ یول سے بغاوت کی قیادت کرنے کے الزامات سمیت متعدد معاملات کی تحقیقات کے سلسلے میں تفتیش کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں بغاوت کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید یا موت کی سزا دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: انتونی بلنکن کو فلسطین حامی مظاہرین نے ’نسل کشی کا سیکریٹری ‘‘ کہا
بدھ کو دن کے اوائل میں صدر کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا تھا جس کے بعد یون کو جنوبی کوریائی حکومت کے ماتحت ایک خودمختار ایجنسی نے گرفتار کیا جو اعلیٰ عہدیداران کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، ۳ ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں نے یون کو گرفتار کرنے کیلئے ان کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کیا۔ قانون کے مطابق، حکام یون کو تفتیش کیلئے ۴۸ گھنٹے تک حراست میں لے سکتے ہیں۔ تاہم، انہیں اس مدت کے بعد اگلے ۲۰ دن تک گرفتار کرنے کے لئے ایک اور وارنٹ کی ضرورت ہوگی ورنہ صدر کو رہا کرنا ہوگا۔ یون کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے میں یون کی گرفتاری کا وارنٹ غیر قانونی تھا کیونکہ اسے غلط دائرہ اختیار میں جاری کیا گیا تھا۔ صدر کے خلاف تحقیقات کے لئے تشکیل دی گئی ٹیم کے پاس بھی ایسا کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں سے ایک آئینی عدالت، جو آئینی نظرثانی کے لئے ذمہ دار ہے، اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا یون کے مواخذے کو برقرار رکھا جائے اور انہیں مستقل طور پر عہدے سے ہٹایا جائے یا ان کے صدارتی اختیارات بحال کر دیئے جائیں۔
یہ بھی پڑھئے: شمالی کوریا کا ایک مہینے میں دوسری بار بیلسٹک میزائل کا تجربہ
یون نے ۳ دسمبر کو ملک میں فوجی حکمرانی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن قومی پارلیمنٹ نے اس فیصلہ کے خلاف ووٹ دے کر محض ۶ گھنٹوں میں ہی اس فیصلے کو واپس لے لیا۔ صدر نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام "ریاست مخالف عناصر کو ختم کرنے" اور ملک کو "شمالی کوریا کی کمیونسٹ قوتوں" سے بچانے کے لئے ضروری ہے۔ تاہم، قلیل مدتی مارشل لاء کے حکم کے خلاف ہزاروں جنوبی کوریائی باشندے احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتر گئے تھے۔ ملک کی مرکزی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی صدر کے اختیارات چھیننے کا مطالبہ کیا تھا۔ ملک میں مارشل لاء لگانے کی ناکام کوشش کے ۱۲ دن بعد ۱۴ دسمبر کو جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ میں صدر یون کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے، وہ اپنی رہائش گاہ تک محدود تھے۔ صدارتی سیکیوریٹی نے ۳ جنوری کو انہیں گرفتار کرنے کی پہلی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔