گزشتہ کئی دہائیوں میں بڑی تعداد میں بچوں کو امریکہ اور یورپ بھیجنے کی دوڑ میں، جنوبی کوریا کے متبنہ ایجنسیوں نے بچوں کو گود لینے کے زیادہ قابل بنانے کیلئے دستاویزات میں جعل سازی سمیت وسیع پیمانے پر بدعنوانی کی۔
EPAPER
Updated: March 27, 2025, 10:07 PM IST | Seoul
گزشتہ کئی دہائیوں میں بڑی تعداد میں بچوں کو امریکہ اور یورپ بھیجنے کی دوڑ میں، جنوبی کوریا کے متبنہ ایجنسیوں نے بچوں کو گود لینے کے زیادہ قابل بنانے کیلئے دستاویزات میں جعل سازی سمیت وسیع پیمانے پر بدعنوانی کی۔
بدھ کو جنوبی کوریا نے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بڑی تعداد میں بچوں کو امریکہ اور یورپ بھیجنے کی دوڑ میں، جنوبی کوریا کے متبنہ ایجنسیوں نے بچوں کو گود لینے کے زیادہ قابل بنانے کیلئے دستاویزات میں جعل سازی سمیت وسیع پیمانے پر بدعنوانی کی ۔جنوبی کوریا کی ٹرتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن (حکومتی ادارہ) کے نتائج، جن میں کہا گیا کہ دہائیوں قبل بچوں کو سامان کی طرح منافع کیلئے بھیجا جاتا تھا، بیرونِ ملک مقیم جنوبی کوریائی گود لیے گئے بچوں کیلئے ایک مشکل سے حاصل ہونے والی فتح ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بہت سے گود لیے گئے افراد اپنی پیدائشی سرزمین پر واپس آئے ہیں اور جنوبی کوریا کو اس کے جدید تاریخ کے سب سے شرمناک ورثے کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کیلئے بے تکان مہم چلا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: جنوبی کوریا: جنگلاتی آگ سے ۱۳۰۰؍ سالہ قدیم بودھ مندر خاکستر، ۲۴؍ جاں بحق
کمیشن نے تسلیم کیا کہ ایڈپشن ایجنسیوں نے دستاویزات میں جعل سازی کر کے بچوں کو یتیم ظاہر کیا، حالانکہ ان کے والدین زندہ تھے۔ جب کچھ بچوں کی بیرونِ ملک بھیجے جانے سے پہلے ہی موت ہو گئی، تو دوسرے بچوں کو ان کے نام پر بھیج دیا گیا۔ چار پرائیویٹ ایڈپشن ایجنسیوں کے سربراہوں کو بچوں کا قانونی سرپرست بننے کا اختیار دیا گیا، جس کے تحت وہ انہیں بیرونِ ملک گود لینے کیلئے دستخط کر سکتے تھے۔ کمیشن کی رپورٹ میں گود لینے کے عمل میں موجود مسائل، جیسے کہ نگرانی کی کمی، کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا، حالانکہ ایسی بدعنوانیاں پہلے بھی سامنے آ چکی ہیں۔ ادارے نے سفارش کی کہ حکومت جنوبی کوریائی گود لیے گئے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر معافی مانگے۔
واضح رہے کہ ۱۹۵۳ءمیں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے تقریباً۲؍ لاکھ جنوبی کوریائی بچوں کو بیرونِ ملک بھیجا گیا، جن میں سے زیادہ تر امریکہ اور یورپ گئے۔ اس لحاظ سے جنوبی کوریا بین الاقوامی سطح پر گود لیے گئے بچوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔جنگ کے بعد کی غربت زدہ دہائیوں میں، جنوبی کوریا نے یتیم، ترک کردہ یا معذور بچوں کیلئے گھر ڈھونڈنےکیلئے بیرونِ ملک گود لینے کو فروغ دیا، بجائے اس کے کہ ملک میں ہی ان کیلئے فلاحی نظام تعمیر کیا جاتا۔ حکومت نے ایڈپشن ایجنسیوں پر چھوڑ دیا کہ وہ گود لینے والے خاندانوں سے فیس لے کر بچوں کو ڈھونڈیں اور بیرونِ ملک بھیجیں۔
یہ بھی پڑھئے: جاپان زخمی فلسطینیوں کا علاج کرے گا، تعلیمی میدان میں طلبہ کی مدد کرے گا
کمیشن کے نتائج کا اثر جنوبی کوریا سے باہر بھی ہوا ہے، جہاں کئی ممالک جیسے کہ ناروے اور ڈنمارک نے اپنے بین الاقوامی گود لینے کے عمل کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکہ، جس نے جنوبی کوریا سے سب سے زیادہ بچے گود لیے ہیں، نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ڈنمارک میں مقیم جنوبی کوریائی گود لیے گئے پیٹر مولر، جنہوں نے کمیشن کی تحقیقاتکیلئے بین الاقوامی مہم چلائی، نے کہاکہ ’’ یہ وہ لمحہ ہے جس کیلئے ہم نے جدوجہد کی کمیشن کا فیصلہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے جو ہم گود لیے گئے افراد کو طویل عرصے سے معلوم تھاکہ جنوبی کوریائی گود لینے کے عمل میں دھوکہ دہی، جعل سازی اور مسائل کو چھپایا نہیں جا سکتا۔‘‘
کمیشن نے متعدد معاملات کی نشاندہی کی جہاں بچوں کی شناخت اور خاندانی معلومات گم، جعلی یا من گھڑت تھیں اور جہاں بچوں کو قانونی رضامندی کے بغیر بیرونِ ملک بھیج دیا گیا۔ ایک مثال چانگ نامی بچی کی ہے، جو۱۹۷۴ء میں سیول میں پیدا ہوئی۔ سیول کی ایڈپشن ایجنسی کو اس کی ماں کی شناخت معلوم تھی، لیکن ڈنمارک کے گود لینے والے خاندان کو بھیجے گئے دستاویزات میں ایجنسی نے کہا کہ بچی یتیم خانے سے ہے۔ کمیشن کے مطابق،۱۹۸۸ء میں کوریا سوشل سروس نامی ایجنسی نے ہر بچےکیلئے گود لینے والے خاندانوں سے۱۵۰۰؍ ڈالر کی فیس اور ۴۰۰؍ ڈالر کا عطیہ وصول کیا۔ (اس سال جنوبی کوریا کی فی کس قومی آمدنی ۴۵۷۱؍ ڈالر تھی۔) کمیشن نے کہا کہ ان فنڈز کا کچھ حصہ مزید بچے حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، جس نے بین الاقوامی گود لینے کو منافع پر مبنی صنعت بنا دیا۔
انیا پیڈرسن، جو۱۹۷۶ء میں کسی اور لڑکی کے نام پر ڈنمارک بھیجی گئی تھی (جو گود لیے جانے کے انتظار میں مر چکی تھی)، نے کہا، اگرچہ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن یہ ایک بڑی فتح ہے کہ آخرکار یہتسلیم کیا گیا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘