• Sat, 18 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان میں سیاسی انٹرویو میں یوٹیوب مرکزی میڈیا پرغالب: مطالعہ

Updated: January 16, 2025, 2:03 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

ہندوستان میں ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ یوٹیوب اور ڈیجیٹل میڈیا کے بااثر شخصیات کے ذریعے لئے گئے انٹرویو نے مرکزی میڈیا سے زیادہ ناظرین کو اپنی جانب راغب کیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ریاستہائے متحدہ میں براؤن یونیورسٹی کے ایک طالب علم راگھون اور مشی گن یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر پال نے پایا کہ سامعین کی مصروفیت کا تعین کرنے میں صداقت اور مواد کا معیار بہت اہمیت رکہتا ہے،یہ تحقیق، جس میں ہندوستان کے ۲۰۲۴ءکے عام انتخابات سے قبل ۲۰؍یوٹیوب چینلز کیلئے ۷۴؍سیاست دانوں کے ۲۳۸؍انٹرویو کا تجزیہ کیا گیا،سیاسی مواصلات میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ محققین نے یوٹیوب چینل کی چار زمروں میں درجہ بندی کی،  مرکزی دھارے کا میڈیا، ڈیجیٹل خبریں، اثر و رسوخ اور آزاد صحافی ،اور سیاسی انٹرویو کرنے والے ہر زمرے کے پانچ چینلز کا تجزیہ کیا۔
آزاد اور بااثرصحافیوں نے روائتی اور ڈیجیتل میڈیا چینل کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان صحافیوں کے ساتھ سیاست دانوں کے انٹرویو نے مرکزی دھارے کے میڈیا سے دس گنا زیادہ ناظرین کی آراء حاصل کی۔سیاستدان تیزی سے انٹرویوکیلئے سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ چونکہ مرکزی میڈیاکے پاس ہزاروں کی تعداد میں ویڈیو اور مواد موجود ہوتا ہے جو وہ روزانہ کی بنیاد پرعوام کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انفلوئنسر کے پاس محدود پیداوار ہوتی ہے۔ لیکن اس پیداوار کی بہت تشہیرکی جاتی ہے اور اوسطا بڑی تعداد میں ناظرین کو متوجہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: میٹا کا زکر برگ کےانتخاب پر تبصرے کو نادانستہ غلطی قرار دے کر اظہار معذرت

لائف اسٹائل چینل کرلی ٹیلس کو مجموعی طور پر سب سے زیادہ ناظر ملے، جبکہ آزاد صحافیوں میں اجیت انجم ناظرین کو باندھے رکھنے میں سب سے زیادہ کامیاب رہے۔اس کے علاوہ ڈیجیٹل چینل میں للن ٹاپ دیگر چینل سے آگے رہا، جبکہ یوٹیوب پر مرکزی دھارے کا میڈیا’’ آج تک‘‘ سب سے آگے ہے۔
مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اثر و رسوخ والے پلیٹ فارم پر سیاسی نمائندگی میں سخت تعصب کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں حکمران اتحاد کے سیاست دان غالب نظر آتے ہیں۔ویویک بندرا اور بیئر بائسپس جیسے متاثر کن چینلز نے تقریباً خصوصی طور پر حکمران اتحاد کے سیاستدانوں کے انٹرویوز کی میزبانی کی، جب کہ آزاد صحافی، جیسے انجم، نے زیادہ متوازن کوریج کی پیشکش کی۔ مطالعہ میں سیاسی جماعتوں کا نام نہیں لیا گیا ہے۔مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو انٹرویو مستند نظر آتا ہےوہ نرم گوشہ کے انٹرویو کے مقابلے میں زیادہ ناظرین کو راغب کرتا ہے۔حالانکہ کچھ سیاسی لیڈر اسی قسم کے انٹرویو کو ترجیح دیتے ہیں۔مثلاً یو ٹیوبر سمدیش بھاٹیہ کے چینل پر ۲۰؍ لاکھ سبسکرائبر ہونے کے باوجود فی انٹر ویو ۱۷؍ لاکھ آراء حاصل کیں۔جبکہ وویک بندرا جیسے متاثر کن شخصیت کے بڑے پیمانے پر سبسکرائبر ہونے کے باوجود ۲؍ لاکھ سے کم آراء حاصل کی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ناندیڑ کی مسجد ساجدین میں تعلیم کیلئے اسٹڈی سینٹر کےقیام کا منفردتجربہ

محققین نے یہ بھی پایا کہ ۶۰؍سے ۸۰؍  منٹ تک جاری رہنے والے انٹرویوز میں سب سے زیادہ آراء ملے، جس کو انہوں نے حیران کن قرار دیا، جس نے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا کہ سوشل میڈیا کے ناظر نسبتاً چھوٹے مواد تلاش کرتے ہیں۔اس مطالعے نے اس رجحان کی جڑیں وزیر اعظم نریندر مودی کی مواصلاتی حکمت عملی میں تلاش کیں۔مطالعے کے مطابق صحافی کرن تھاپر کے ساتھ مودی کا ۲۰۰۷ء کا انٹرویو ایک اہم لمحہ تھا، جس کے بعد مودی نے مرکزی دھارے کے میڈیاانٹرویو سے بڑی حد تک گریز کیا۔
سیاست دانوں میں جن سورج پارٹی کے بانی پرشانت کشور کے انٹرویوز کو سب سے زیادہ رائے ملی اس کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے بانی اسد الدین اویسی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کےلیڈراور مرکزی وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان کا نمبر آتا ہے۔تحقیق کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بااثر شخصیات سیاستدانوں کو نئے ناظرین تک رسائی کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ساتھ ہی خود کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی دیگر وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ ان کے پاس سیاستدانوں کی نکیل کسنے کا ہنر نہیں ہوگا، یا ایسی کوئی پالیسی کا علم ہوگا جو لازمی طور پر سیاستدانوں کی گرفت کرسکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK