۲۹۵ دن کی تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، چیف جسٹس آف انڈیا نے طریقہ کار کی وقتی حدود پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
EPAPER
Updated: January 03, 2025, 11:17 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
۲۹۵ دن کی تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، چیف جسٹس آف انڈیا نے طریقہ کار کی وقتی حدود پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
سپریم کورٹ نے جمعہ کو نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (این ایچ اے آئی NHAI) اور دیگر سرکاری حکام سے عدالت میں اپیل دائر کرنے میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور حکام سے اپنا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے این ایچ اے آئی کی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا، "میرا خیال ہے کہ تقریباً ۹۵ فیصد معاملات میں ہر کوئی ٹائم شیڈول پر عمل کر رہا ہے، کیا حکومت ہند کو بھی اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے؟ کہیں کچھ گڑبڑ ہے... حکام کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ عبادتگاہ قانون پر اسد الدین اویسی کی عرضی پر سماعت کے لئے تیار
این ایچ اے آئی نے ایک دیوالیہ کیس میں نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل (این سی ایل اے ٹی NCLAT) کے حکم کو چیلنج کیا تھا جس پر جسٹس سنجے کمار اور دیگر ججز کی بنچ سماعت کررہی تھی۔ این سی ایل اے ٹی نے تاخیر کی وجہ سے این ایچ اے آئی کی اپیل کو خارج کر دیا تھا۔ ۲۹۵ دن کی تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، چیف جسٹس آف انڈیا نے طریقہ کار کی وقتی حدود پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ این ایچ اے آئی کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کے مشاہدے سے اتفاق کیا اور اس مسئلے کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ مہتا نے کہا کہ "میں چیئرمین سے بات کروں گا۔ وہ اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ اس معاملہ میں اس قدر سستی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔"
یہ بھی پڑھئے: حکم امتناع کے باجود کمال مولیٰ مسجد میں کھدائی پرسپریم کورٹ شدید برہم
یہ مقدمہ دیوالیہ پن اور دیوالیہ کوڈ سے متعلق تھا، جہاں این ایچ اے آئی، جو ایک آپریشنل قرض دہندہ ہے، نے ایک ریزولیوشن پلان کی منظوری پر اعتراض کیا جو اس کی رضامندی کے بغیر منظور کیا گیا تھا۔ این ایچ اے آئی کو اس منصوبے کی نئی شرائط پر اعتراض تھا، جس میں ایک نئے شراکت دار کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس میں ان کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ریزولیوشن پروفیشنل نے این ایچ اے آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنا دعویٰ فارم ایف کے ذریعے جمع کریں۔ تاہم، عدالت نے معاملے کی تفصیلات پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ مقدمہ دیر سے دائر کیا گیا اور اسے خارج کردیا۔