• Thu, 12 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شام: بشار الاسد ملک سے فرار، عسکریت پسند دمشق میں داخل

Updated: December 08, 2024, 6:24 PM IST | Inquilab News Network | Damascus

وزیر اعظم محمد جلالی نے شام کو آزادانہ انتخابات کرانےکا مطالبہ کیا تاکہ عوام کو اپنیقیادت کا فیصلہ کرسکیں۔حزب اختلاف کے جنگجوؤں اور شہریوں نے ’آزاد شامی ریاست‘ کے ریاستی اداروں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

People took to the streets in celebration after the end of Bashar al-Assad`s rule. Photo: PTI
بشر الاسد دور کے خاتمے کے بعد عوام جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ تصویر: پی ٹی آئی

شام کے دو سینئر فوجی افسران نے کہا کہ صدر بشار الاسد دمشق سے نامعلوم منزل کیلئے روانہ ہو گئے ہیں۔ جبکہ عسکریت پسند وں نے اعلان کیا کہ وہ فوجی مزاحمت کے بغیر دار الحکومت میں داخل ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور نا انصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتےہیں۔فلائٹ راڈار ویب سائٹ کے مطابق شامی ایئر کے ایک طیارے نے دمشق کے ہوائی اڈے سے اس وقت اڑان بھری جب باغیوں نے دمشق کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ابتدائی طور پر طیارے نے شام کے ساحلی علاقے کی جانب پرواز کی لیکن پھر اچانک یو ٹرن لیا اور نقشے سے غائب ہو گیا۔اب تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ جہاز میں کو ن کون سوار تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ہمارا مقصد شام کو آمریت اور جابر حکومت سے آزاد کرانا ہے: ابو محمد

شام کے وزیر اعظم محمد جلالی نے اتوار کو کہا کہ شام کو آزادانہ انتخابات کرانا چاہیے تاکہ اس کے عوام اپنی قیادت کا فیصلہ کر سکیں۔العربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، جلالی نے یہ بھی کہا کہ وہ موجودہ عبوری دور کے انتظام پر تبادلہ خیال کرنے کیلئےحزب اختلاف کے کمانڈر ابو محمد گولانی کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، جو شام کے سیاسی مستقبل کو تشکیل دینے کی کوششوں میں ایک قابل ذکر پیش رفت ہے۔ان کا بیان سرکاری ٹی وی پر پڑھا گیا۔شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اس سے قبل جوانوں کے ایک گروپ کا ایک ویڈیو بیان نشر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر بشار اسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور جیلوں میں بند تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔شامی عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمدا لگولانی نے اتوار کو فورسز کو حکم دیا کہ وہ دمشق میں سرکاری اداروں سے رجوع نہ کریں، اور کہا کہ وہ اس وقت تک وزیر اعظم کے ماتحت رہیں گے جب تک کہ انہیں سرکاری طور پرحوالے نہیں کیا جاتا۔مزید یہ کہ’’ عظیم شامی انقلاب اسد حکومت کا تختہ الٹنے کی جدوجہد کے مرحلے سے ایک ایسے شام کی تعمیر کی جدوجہد کی طرف بڑھ گیا ہے جو اس کے عوام کی قربانیوں کے مطابق ہو۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں رفیوجی کیمپ اور اسپتال کے آس پاس اسرائیلی حملے، ۵۵؍ جاں بحق

شام کے وزیر اعظم محمد الجلالی نے اتوار کو کہا کہ وہ عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔جبکہ باغیوں نے محض ایک دن کی لڑائی کے بعد کلیدی شہر حمص کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے،جس کے بعد مقامی نوجوان ، اور عسکریت پسند اسد خاندان کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کا جشن منانے لگے۔اس شہر کے ذریعے باغیوں کو شام کی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم شاہراہ پر کنٹرول مل گیا۔حیات تحریر الشام کے کمانڈر ابو محمد الگولانی، جو اہم عسکریت پسندلیڈر ہے نے حمص پر قبضے کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ہتھیار پھینکنے والوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔عسکریت پسندوں نے شہر کی جیل سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کیا۔ سیکورٹی فورسز اپنے دستاویزات کو جلانے کے بعد جلد بازی میں وہاں سے نکل گئیں۔
قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکی اور روس نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بحران ایک خطرناک پیشرفت ہے اور اس کے سیاسی حل پر زور دیا۔واضح رہے کہ شام کی خانہ جنگی جو ۲۰۱۱ء میں بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے بعد شروع ہوئی تھی۔حیات تحریر الشام، سب سے مضبوط عسکریت پسند گروپ، ہے جو شام میں سابقہ القاعدہ سے وابستہ ​​ہے۔شامی فوج کے ذرائع نے اتوار کوبتایا کہ لبنان کی ایران حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ لبنان کی سرحد پر واقع شامی شہر قصیر سے پیچھے ہٹ گئی،جس کے بعد عسکریت پسندوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔حزب اللہ کے سینکڑوں جنگجوؤں کو لے کر کم از کم ۱۵۰؍بکتر بند گاڑیاں شہر سے روانہ ہوئیں،اسرائیل نے قافلے میں سے ایک کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ روانہ ہو رہا تھا۔
شام طویل عرصے سے باغیوں کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادیوں پر منحصر رہا ہے۔لیکن روس یوکرین کی جنگ میں مبتلا ہے اور حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑاہے۔جس سے ایران اور روس اس کی اس طرح مدد نہ کر سکے۔جبکہ نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو اس تنازع میں ملوث نہیں ہونا چاہئے، اور جو ہو رہا ہے اسے ہونے دینا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK