• Wed, 25 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شام: صیدنایا جیل کی ہولناکیاں، اسد حکومت کی زیادتیوں کی علامت

Updated: December 14, 2024, 9:54 PM IST | Damascus

صیدنایا جیل، معزول صدر کے والد حافظ الاسد کے دور میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں تعمیر کی گئی تھی اور ابتدائی طور پر اسے سیاسی قیدیوں کے لئے بنایا گیا تھا جن میں اسلام پسند گروپوں کے ممبران اور کرد عسکریت پسند شامل تھے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

شام کے دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع صیدنایا جیل اسد خاندان کی غیر انسانی زیادتیوں کی ایک بدنام زمانہ علامت بن گئی ہے۔ خاص طور پر جب ۲۰۱۱ء میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس جیل میں ظلم زور پکڑتا گیا۔ اس ماورائے عدالت، جیل کامپلیکس میں معزول صدر بشار الاسد کے مخالفین کے خلاف غیر انسانی تشدد اور انہیں پھانسیاں دی جاتی تھیں۔ جب شامی عسکریت پسند اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اتوار کو دمشق میں داخل ہوئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے صیدنایا پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں کے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، کچھ قیدی، وہاں ۱۹۸۰ء کی دہائی سے قید تھے۔ صیدنایا جیل کے زیر حراست افراد اور لاپتہ افراد کی تنظیم (اے ڈی ایم ایس پی) کے مطابق عسکریت پسندوں نے ۴ ہزار سے زائد قیدیوں کو آزاد کرایا۔ ان میں سے کچھ قیدی اتنے لاغر تھے کہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ انہیں دوسرے افراد نے قیدخانہ سے نکلنے میں مدد کی۔ ان قیدیوں کی تصاویر، سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں وائرل ہو گئیں۔ اچانک اس بدنام زمانہ جیل، جسے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے "انسانی قتل گاہ" قرار دیا تھا، میں ہوئے مظالم سب کے سامنے آ گئے۔

یہ بھی پڑھئے: شام: قیدیوں کو شیر کو کھلانے والے سفاک فوجی کو پھانسی دی گئی

صیدنایا جیل، معزول صدر کے والد حافظ الاسد کے دور میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں تعمیر کی گئی تھی اور ابتدائی طور پر اسے سیاسی قیدیوں کے لئے بنایا گیا تھا جن میں اسلام پسند گروپوں کے ممبران اور کرد عسکریت پسند شامل تھے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ، صیدنایا جیل، شامی عوام پر بے رحم ریاستی کنٹرول کی علامت بن گئی۔
۲۰۱۶ء میں، اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے بتایا تھا کہ شام کی حکومت نے، خاص طور پر صیدنایا میں، انسانیت کے خلاف قتل، عصمت دری یا جنسی تشدد کی دیگر اقسام، تشدد، قید، جبری گمشدگی اور دیگر غیر انسانی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اگلے ہی سال، ۲۰۱۷ء میں حقوقِ انسانی کیلئے سرگرم عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے "ہیومن سلاٹر ہاؤس" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں صیدنایا میں دی گئی ہزاروں پھانسیوں کو دستاویزی شکل دی اور اسے تباہ کن کی پالیسی قرار دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد، امریکہ نے صیدنایا کے اندر ایک قبرستان کی موجودگی کا انکشاف کیا جس میں ہزاروں قتل کئے گئے قیدیوں کی باقیات کو جلایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: شام: عقوبت خانے سے رہا ہونے والے قیدیوں کا ’’موت کی کوٹھری‘‘ کا دورہ

جنگ کی نگرانی کرنے والی سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ۲۰۲۲ء میں اطلاع دی تھی کہ صیدنایا میں تقریباً ۳۰ ہزار قیدی موجود ہیں جن میں بیشتر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور صرف ۶ ہزار کو رہا کیا گیا۔ اے ڈی ایم ایس پی کا خیال ہے کہ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان ۳۰ ہزار سے زائد قیدی، سزائے موت یا تشدد کے تحت یا طبی دیکھ بھال یا خوراک کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ شام میں سابق حکام نے کولڈ اسٹوریج کی کمی کو پورا کرنے کے لئے عارضی مردہ خانے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے نمک سے بھرے کمرے تیار کئے تھے۔ ۲۰۲۲ء میں، اے ڈی ایم ایس پی نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں پہلی بار نمک کے ان عارضی مردہ خانوں کی وضاحت کی گئی۔

یہ بھی پڑھئے: شام کے نئے حکمرانوں نے عوام سے سڑکوں پر فتح کا جشن منانےکی اپیل کی

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کا پہلا چیمبر ۲۰۱۳ء میں بنایا گیا تھا، جسے شام کی خانہ جنگی کے خونریز ترین برسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت سے قیدیوں کو سرکاری طور پر لاپتہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے اہل خانہ کو کبھی بھی موت کا سرٹیفکیٹ نہیں ملتا جب تک کہ وہ حد سے زیادہ رشوت نہ دیں۔ گزشتہ ہفتہ، دمشق کے سقوط کے بعد، لاپتہ افراد کے ہزاروں رشتہ دار اس امید پر صیدنایا پہنچ گئے کہ شاید وہ زیر زمین قیدخانوں میں چھپے اپنے عزیزوں کو تلاش کرسکیں۔ صیدنایا اب خالی ہو چکا ہے۔ شام کے وائٹ ہیلمٹس کے ہنگامی کارکنوں کے گروپ نے منگل کو وہاں تلاشی کی کارروائیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اردن میں انسانی حقوق کی ایک عرب تنظیم کے مطابق، ۲۳۶ اردنی شہری شام کی جیلوں میں قید ہیں جن میں سے زیادہ تر صیدنایا میں ہیں۔ رہائی پانے والے دیگر غیر ملکیوں میں لبنان سے تعلق رکھنے والے سہیل حماوی بھی شامل ہیں جو شام میں ۳۳ سال تک قید رہنے کے بعد پیر کو وطن واپس آئے۔ وہ بھی صیدنایا میں قید رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK