Updated: January 19, 2025, 9:58 PM IST
| Kabul
طالبان کی وزارتِ خارجہ میں سیاسی نائب شیر عباس ستانکزئی نے ایک تقریر کے دوران لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسے پہلے بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ماضی میں بھی یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے تھی۔
عباس ستانکزئی۔ تصویر: آئی این این۔
طالبان کی وزارتِ خارجہ میں سیاسی نائب شیر عباس ستانکزئی نے جنوب مشرقی صوبے خوست میں ایک تقریر کے دوران لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔ ایک مذہبی مدرسے کی تقریب سے تقریر میں ستانکزئی نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسے پہلے بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ماضی میں بھی یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے تھی۔ اگست ۲۰۲۱ء میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ گزشتہ ستمبر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ طالبان حکومت نے خواتین کو طبی ٹریننگ لینے سے بھی روک دیا ہے۔ افغانستان میں صرف خواتین ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خواتین اور لڑکیوں کا علاج کرنے کی اجازت ہے۔ طالبان حکام نے طبی تربیت سے متعلق پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی ادارہ صحت کا غزہ میں طبی سہولیات سے لیس اسپتالوں کے قیام کا اعلان
سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہم اپنی قیادت پر ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ سب کیلئے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چار کروڑ میں سے دو کروڑ آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کرکے نا انصافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ اسلامی شریعت کے مطابق نہیں البتہ ہماری اپنی طبیعت یا پسند و ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا آج کسی حیلے بہانے سے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کئے جاسکتے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں بھی تمام مردوخواتین پر علم کے دروازے کھلے تھے۔ آج دنیا اس پابندی کو بنیاد بنا کر ہم پر تنقید کر رہی ہے۔ شیر عباس ستانکزئی طالبان کی اس مذاکراتی ٹیم کے سرکردہ لیڈران میں شامل تھے جس نے افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کیلئے بات چیت کی تھی۔
بتا دیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ستانکزئی نے لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق میں بیان دیا ہے۔ اس سے قبل ستمبر۲۰۲۲ء میں بھی انہوں نے لڑکیوں کے اسکول کئی ماہ بند رکھنے اور یونیورسٹی تعلیم پر پابندی کے اقدامات کے بعد ایسے ہی بیانات دیئے تھے۔ لیکن اس بار ستانکزئی نے طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ سے اس پالیسی میں تبدیلی کیلئے براہِ راست مطالبہ کیا ہے۔ کرائسس گروپ ساؤتھ ایشیا پروگرام سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار ابراہیم باہس نے کہا ہے ستانکزئی ماضی میں بھی ایسے بیانات دیتے آئے ہیں۔ لیکن اس بار انہوں نے عوامی سطح پر براہ راست نہ صرف یہ پالیسی بدلنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب : ۱۰؍ فروری سے عمرہ زائرین کیلئے ویکسینیشن لازمی
واضح رہے کہ دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن روس سمیت کئی ممالک اس حکومت سے روابط بڑھا رہے ہیں۔ ہندوستان نے بھی افغان حکام کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہیں۔ رواں ماہ دبئی میں ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات ہوئی تھی جس میں باہمی تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ تعلیم، ملازمت پر قدغنوں اور بغیر محرم نقل و حرکت پر پابندیوں کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق تسلیم کرنا نا ممکن ہے۔