• Thu, 09 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

تمل ناڈو حکومت کا وادیٔ سندھ کی زبان سمجھانے پر ایک ملین ڈالر کے انعام کا اعلان

Updated: January 06, 2025, 8:27 PM IST | Inquilab News Network | Chennai

تمل ناڈو میں دراوڈ تحریک کے سیاست داں، طویل عرصے سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کے باشندے تمل آبادی کے آباؤ اجداد ہو سکتے ہیں۔

Tamil Nadu CM M.K. Stalin. Photo: INN
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن۔ تصویر: آئی این این

تقریباً ایک صدی قبل دریافت ہوئی وادی سندھ کی تہذیب میں مستعمل رسم الخط ابھی تک محققین اور ماہرین کیلئے ایک معمہ ہے۔ اس معمہ کو حل کرنے کیلئے تمل ناڈو نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔ تمل ناڈو حکومت نے اتوار کو اعلان کیا کہ جو ماہر یا تنظیم وادی سندھ کی تہذیب کے رسم الخط کو سمجھنے میں کامیابی حاصل کرے گی اسے ۱۰ لاکھ ڈالر (تقریباً ۵ء۸ کروڑ روپئے) کے انعام سے نوازا جائے گا۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت کی صد سالہ تقریب میں کہا، "ہم وادی سندھ کی تہذیب کے رسم الخط کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں جو ایک دور میں پروان چڑھی تھی۔ آج، ۱۰۰ سال بعد بھی وہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔" 

واضح رہے کہ انگریز ماہر آثار قدیمہ جان مارشل نے ۱۹۲۴ء میں وادی سندھ کی تہذیب کو دریافت کیا تھا۔ اس تہذیب کی شناخت پہلی بار ۱۹۲۱ء میں ہوئی تھی۔ ہندوستانی آثار قدیمہ کے سروے کے ڈائریکٹر جنرل مارشل نے کھدائی کے ذریعہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو دریافت کیا تھا اور ۱۹۲۴ء میں اس دریافت کا اعلان کیا۔ وادی سندھ کی تہذیب، دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا آغاز تقریباً ۵ ہزار سال قبل جدید دور کے پاکستان اور شمالی ہندوستان کے ایک علاقہ میں ہوا۔ وادی میں ایک ہزار ۴۰۰ سے زیادہ قصبے اور شہر تھے جن میں ہڑپا اور موہن جوداڑو سب سے بڑے شہر تھے۔ اندازے کے مطابق، ان شہروں کی ابادی تقریباً ۸۰ ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب میں مستعمل انڈس رسم الخط کی وضاحت نہیں ہو پائی ہے۔ گزشتہ صدی میں، ۱۰۰ سے زائد آثار قدیمہ کے ماہرین، حروف تہجی کے ماہرین، ماہر لسانیات، مورخین، سائنسدانوں اور دیگر کی طرف سے رسم الخط کو سمجھنے کے لئے کوششیں کی ہیں۔ تہذیب کے نوشتہ جات مہر کے پتھروں، ٹیراکوٹا کی گولیوں اور کچھ دھاتی اشیاء پر پائے جاتے ہیں۔ یہ نوشتہ جات عام طور پر تصویری زبان پر مشتمل ہوتے ہیں، جو اکثر جانوروں یا انسانوں کے نقشوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: خلا میں لوبیا کے بیج کی کامیاب کاشت، اسرو کے سائنسدانوں کا کارنامہ،جلد پتےنکل آنے کی امید

تمل ناڈو میں دراوڈ تحریک کے سیاست داں، طویل عرصے سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کے باشندے تاملوں کے آباؤ اجداد ہو سکتے ہیں۔ کئی ماہرین نے یہ بھی قیاس ظاہر کیا ہے کہ وادی سندھ تہذیب کا رسم الخط علامتوں کا ایک مجموعہ ہے جو ابتدائی دراوڑی زبان کی نمائندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، اس ربط کو قائم کرنے کے لئے آثار قدیمہ اور جینیاتی ثبوت اب تک مضبوط نہیں ہو سکے ہیں۔

اسٹالن نے اتوار کو کہا، "ماہرین آثار قدیمہ، تمل کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ماہرین اور دنیا بھر کے کمپیوٹر ماہرین رسم الخط کو سمجھنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لئے، ریاستی حکومت ایک ملین ڈالر کا انعام کا اعلان کرتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی حکومت ۲ کروڑ روپے کی مدد فراہم کرے گی تاکہ ماہر آثار قدیمہ اور تصنیف نگار اراوتھم مہادیون کے نام پر ایک ادارہ قائم کیا جائے اور وادی سندھ کی تہذیب پر تحقیق جاری رکھی جا سکے۔ مہادیون سندھ رسم الخط کے ماہر تھے۔ یہ تحقیق ریاست کے محکمہ آثار قدیمہ اور انڈس ریسرچ سینٹر کی جانب سے چنئی میں واقع روجا متھیا لائبریری میں کی جائے گی۔ ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق، اس موقع پر سٹالن نے آثار قدیمہ، ایپی گرافی اور نیومسیٹکس میں ۲ اسکالرز کے لئے سالانہ ایوارڈ کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ نے تمل ناڈو کے ریاستی محکمہ آثار قدیمہ کی ایک کتاب بھی جاری کی، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ تمل ناڈو میں کھدائی کے مقامات سے ۶۰؍ فیصد نشانیاں اور ۹۰؍ فیصد نقشے وادی سندھ کی تہذیب، ہندستان میں پائے جانے والے نقشوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: آگرہ:۱۷؍ ویں صدی کی ’مبارک منزل‘ کے انہدام پربرہمی، اسکاٹش مورخ نےآئینہ دکھایا

اپنی تقریر میں اسٹالن نے کہا، "اس سے قبل لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ یہ تخیل کا ایک افسانہ تھا کہ آریائی اور سنسکرت ہندوستان کی اصل ہیں۔ لیکن وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت نے اس تاثر کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ ان کی اس دلیل کو مزید تقویت ملی ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب آریائی تہذیب سے پہلے کی تھی اور وادی سندھ میں بولی جانے والی زبان دراوڈ ہو سکتی ہے۔" واضح رہے کہ آریائی ہجرت کا نظریہ سب سے پہلے مغربی اسکالرز نے نوآبادیاتی دور میں پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق، یورپی یا وسطی ایشیائی "آریائی" کی ایک نسل برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوئی، جس نے مقامی وادی سندھ کی تہذیب کو بے گھر کیا۔ کچھ مورخین آریائی ہجرت کے نظریہ کی حمایت کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وادی سندھ، تہذیب ویدک دور سے قبل کی تھی، دیگر کا کہنا ہے کہ آریائی ہی ہندوستان کی مقامی آبادی تھے۔

اتوار کو سٹالن نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وادی سندھ میں بیل موجود تھے جو دراوڑ کی علامتوں میں شمار ہوتے ہی۔ بیل وادی سندھ سے تامل ناڈو میں النگنالور [مدورائی کے قریب ایک گاؤں جہاں جلی کٹو منعقد ہوتا ہے] تک پھیل گئے ہیں۔ قدیم تمل ادب بیلوں کو پالنے کے متعلق بات کرتا ہے اور اسے `کولیرو تھازووتھل` کہا جاتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "وادی سندھ کی علامتوں میں بھی بیلوں کی تصویریں ہیں جو ان نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں جنہوں نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی۔"

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK