حافظ ناصر خان اشاعتی ۱۹۹۲ءسے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ان کے۳؍بھائی اور۲؍بھتیجے حافظ قرآن ہیںجبکہ ان کا چھوٹا بیٹا بھی چند پارے حفظ کرچکا ہے ۔ والدہ کی قربانی کی بدولت یہ عظیم دولت ان سب کو نصیب ہوئی
EPAPER
Updated: March 19, 2025, 10:55 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
حافظ ناصر خان اشاعتی ۱۹۹۲ءسے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ان کے۳؍بھائی اور۲؍بھتیجے حافظ قرآن ہیںجبکہ ان کا چھوٹا بیٹا بھی چند پارے حفظ کرچکا ہے ۔ والدہ کی قربانی کی بدولت یہ عظیم دولت ان سب کو نصیب ہوئی
۳۵؍ برس سے پابندی سے تراویح پڑھا رہے ہیں حافظ ناصر خان نواز خان۔ ان کا تعلق شیرپور ضلع دھولیہ سے ہے۔ ۵۲؍سالہ حافظ ناصر خان نے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں ۱۹۸۹ء میں شعبۂ حفظ میں داخلہ لیا اور ۳؍ سال بعد۱۹۹۱ء میں تکمیل ِ حفظ کیا۔ اس کے بعد ۱۹۹۲ءسے تراویح پڑھانے کا آغاز کیا۔ انجمن قوت الاسلام عیدگاہ نگر میںتدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ۱۹۹۹ء سے مسجد عمر فاروق شیرپور میں امامت وخطابت کے ساتھ اسی مسجد میں ۲۶؍برس سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ اس سے قبل دیگر مساجد میں پڑھاچکے ہیں۔
حافظ ناصر خان اپنی ان ذمہ داریوں اور تراویح کے اہتمام کے ساتھ معروف ادارہ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی نگرانی میں قرب ونواح میں دھولیہ و نندوربار ضلعوں کے تقریباً ۴۰؍ مکاتب کے نگراں بھی ہیں۔ ان کی لگن اورتعلیم وتعلم سے دلچسپی کے باعث مقامی ذمہ داران اورجامعہ کے سرپرستوں نے انہیں یہ ذمہ داری تفویض کی۔ شیرپور کے کئی مفتی، عالم اور حفاظ آپ کے تربیت یافتہ ہیں۔ حافظ ناصر خان اپنی متعدد مصروفیات کے ساتھ اس بات کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ حفظ کلام اللہ کی جو دولت انہیں حاصل ہوئی ہے وہ تاحیات باقی رہے۔ چنانچہ مصروفیات تلاوت میں مانع نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو بھی یہی تلقین کرتے ہیں۔ان کےکئی شاگرد الگ الگ مقامات پر تراویح پڑھا رہے ہیں۔ حافظ ناصر خان کے نزدیک تراویح پڑھانا اس لئے انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے روزانہ ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے اور حافظ قرآن کو قرآن کریم کا مقررہ حصہ سنانا ہوتا ہے اس کے لئے اسے لازماً ًمحنت کرنی ہوتی ہے۔گویا وہ روزانہ مصلے پر امتحان دیتا ہے۔ رمضان کی یہ محنت پورے سال کام آتی ہے۔
حافظ ناصر خان کے۶؍بھائیوں میں ۳؍ حافظ قرآن ہیں اور ۲؍ بھتیجوں نے بھی حفظ کیا ہے جبکہ ان کا چھوٹا بیٹا بھی چند پاروں کا حافظ ہے۔ حافظ ناصر خان تراویح کے دوران اپنے ۲؍ شاگردوں کوبھی تراویح کےدورا ن اپنےساتھ رکھتے ہیں۔اس کا سبب انہوں نے یہ بتایاکہ’’ اگر کبھی اچانک سفر ہوجائے یاکوئی اور مسئلہ درپیش آجائے تو تراویح پڑھانے میںکوئی خلل واقع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان شاگردو ںکی عملی تربیت بھی ہوتی رہتی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: چندوسی، سنبھل: مسجد اور ۳۴؍ مکانات پر بلڈوزر کارروائی کا اندیشہ
حفظ قرآن کی دولت کے حصول کے لئے حافظ ناصر اپنی والدہ کو یاد کرکے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’والدہ کی کڑھن اور ان کی فکر نے ہم بھائیوں کو اس عظیم دولت عطا کی۔ والد (مرحوم) حاجی نواز خان ایس ٹی ڈرائیور تھے، چنانچہ عملی تربیت میں والدہ کا نمایاں رول ہے۔ والدہ کی خواہش تھی کہ میرے بیٹے حافظ قرآن بنیں، وہ کوشش کرنے کے ساتھ مستقل دعا بھی کرتی تھیں، اسے باری تعالی نے قبول کیا۔ آج وہ اپنی قبر میں آرام فرماہیں اوران کی قربانی ان کے لئے ذخیرہ آخرت بن گئی۔ ‘‘
والدہ کے تعلق سے وہ مزیدکہتے ہیںکہ ’’ والدہ بہت نیک اورپرہیزگار تھیں ، ان کو یہ گوارا نہیںتھا کہ ہم بھائیوں میںسے کسی کا ایک دن بھی ناغہ ہو، اس لئے وہ وقت سے قبل ہم لوگوں کو مدرسہ جانے کے لئے تیار کردیتی تھیں اور ہر دفعہ یہ تلقین ضرورکرتی تھیں کہ بیٹا خوب محنت سے دل لگاکرپڑھنا ۔آج بھی ان کی یہ ہدایت تحریک کاباعث بنتی ہے۔ہم اپنی اولادوں کو بھی یہی تلقین کرتے ہیں۔‘‘
حافظ ناصرخان کے چھوٹے بھائی حافظ عرفان گورکنڈ نام کے دیہات میں پڑھارہے ہیں۔ یہ دھولیہ سے ۲۰؍ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ وہ ثواب کی غرض سے امامت بھی کرتے ہیں اور ذریعہ ٔمعاش کے لئے تجارت کرتے ہیں۔ ۳؍ حفاظ بھائیوں میں سے حافظ امجد خان اللہ کوپیارے ہوگئے ہیں، ان کے ۲؍ بیٹے حافظ ہیں جو ان کے لئے ذخیرۂ آخرت ہے۔اس طرح اس خانوادے میںآج بھی ۵؍ حفاظ ہیں اوریہ سلسلہ مزیدد راز ہورہا ہے۔