تھائی لینڈ میں ایک دہائی قبل حراست میں لئے گئے ایغور مردوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ تھائی حکومت انہیں دوبارہ چین بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین میں انہیں بد سلوکی اور تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: January 13, 2025, 6:08 PM IST | Inquilab News Network | Bangkok
تھائی لینڈ میں ایک دہائی قبل حراست میں لئے گئے ایغور مردوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ تھائی حکومت انہیں دوبارہ چین بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین میں انہیں بد سلوکی اور تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تھائی لینڈ میں ایک دہائی قبل حراست میں لئے گئے ایغور مردوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ تھائی حکومت انہیں دوبارہ چین بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین میں انہیں بد سلوکی اور تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔دی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے حاصل کردہ ایک خط میں، بنکاک میں قید۴۳؍ ایغور مردوں نے عوامی اپیل کی ہے کہ ان کی جان کو لاحق خطرات، یا قید کے پیش نظر ان کی ملک بدری روک دی جائے۔انہوں نے خط میں لکھا کہ ’’ ہم انسانی حقوق سے متعلق تمام بین الاقوامی تنظیموں اور ممالک سے فوری طور پر اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس المناک انجام سے بچانے کیلئے فوری مداخلت کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: چین: کووڈ سے ہونے والی پہلی موت کی پانچویں برسی خاموشی سے گزر گئی
ایغور ایک ترک، اکثریتی مسلم نسل ہیں جو چین کے مغربی سنکیانگ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ چین ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، اور ان کی ثقافتی شناخت کو دبانےکیلئے ان کے خلاف ایک ظالمانہ کارروائی شروع کی، جسے کچھ مغربی حکومتیں نسل کشی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اس کارروائی کےتحت ہزاروں لاکھوں ایغور افراد کو قید میں یا کیمپ میں رکھا گیا، جہاں بیماری اور تشدد کے سبب سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔اس سے قبل سیکڑوں ایغور چین سے فرار ہوکر مختلف اوقات میں تھائی لینڈ پہنچے، جنہیں حراست میں لے لیا گیا، ان میں سے کئی کو ان کی مرضی کے خلاف دوبارہ چین بھیج دیا گیا۔اس کے علاوہ ۱۷۳؍ ایغور جن میں خواتین اور بچے بھی تھے ترکی بھیج دئے گئے۔اس کے علاوہ ۵؍ افراد حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
تھائی لینڈ کے محروسین نے قید میں غیر انسانی سلوک کی شکایت کی ہے، انہوں نے بتایا کہ حراست میں انہیں ناقص غذا دی جاتی ہے۔استطاعت سے زیادہ قیدیوں کو جیل میں رکھا جاتا ہے، اس کے علاوہ صاف صفائی کا ناقص انتظام ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کی جانب سے فروری ۲۰۲۴ءکو تھائی حکومت کو بھیجے گئے خط کے مطابق تھائی حکومت کا زیر حراست افراد کے ساتھ برتاؤ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔تاہم تھائی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن بات چیت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ تھائی امیگریشن حکام نے زیر حراست ایغور سے رضاکارانہ ملک بدری کے کاغذات پر دستخط کرنے کو کہا۔ جس کے تحت انہیں دوبارہ چین بھیج دیا جائے گا۔حکام کے اس اقدام نے ایغور افراد کو خوف میں مبتلاء کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ کے ۱۵؍ ماہ: اسرائیل کو ۶۷؍ بلین ڈالر کا مالی خسارہ
چین کا کہنا ہے کہ ایغور جہادی ہیں، لیکن اس نے ثبوت پیش نہیں کیے ہیں۔ ایغور کارکنوں اور حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ افراد بے قصور ہیں اور ان کی ممکنہ ملک بدری پر خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں چین میں دوبارہ ظلم، قید اور ممکنہ موت کا سامنا ہے۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ تھائی حکومت اور چین کے مابین سفارتی تعلقات کی ۵۰؍ ویں سالگرہ اسی سال ہے، یہی وجہ ہے کہ تھائی حکومت ایغور کی ملک بدری پر زور دے رہی ہے، جبکہ امریکہ میں صدارتی تبدیلی کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے بھی خموشی اختیار کی جائے گی۔ تاہم تھائی اور چینی وزارت خارجہ نے فوری طور پر اس معاملے کے تعلق سے تبصرے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔