• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہزاروں یہودیوں کی اسرائیل سے نقل مکانی، برین ڈرین کا خدشہ بڑھ رہا ہے

Updated: December 22, 2024, 8:30 PM IST | London

ہزاروں اسرائیلی ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ءکے بعد سے اسرائیل چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی حکومت اور کنیڈا، جرمنی جیسے ان ملکوں کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں۔

Canadian immigrant Michelle Harel and her husband Avital show off their website designed to guide Israelis in moving to Canada. Photo: INN.
کینیڈا منتقل ہونے والی مشیل ہیرل اور ان کے شوہر اویتل اسرائیلیوں کو کنیڈامنتقل ہونے میں رہنمائی کیلئے تیار کردہ اپنی ویب سائٹ دکھا رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

ہزاروں اسرائیلی ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ءکے بعد سے اسرائیل چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی حکومت اور کنیڈا، جرمنی جیسے ان ملکوں کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں جن کا اسرائیلیوں نے سفر کیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ آیا یہ صورتحال میڈیسن اور ٹیک کے سیکٹرز میں برین ڈرین کی وجہ تو نہیں بن جائے گی۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ایک ماہر شماریات اور پروفیسر ایمریٹس، سرجیو ڈیلاپرگولا کے مطابق، مائیگریشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے۲۰۲۴ء میں اسرائیل چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی تعداد اسرائیل آنے والے تارکین وطن کی تعداد سے بڑھ جائے۔ ایسا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک کمزور جنگ بندی اور غزہ میں حماس کی جانب سے کسی توقف میں کچھ پیش رفت کے باوجود ممکن ہے۔ اس وقت اسرائیل کی آبادی مسلسل بڑھتے ہوئے ایک کروڑ کے ہندسے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار اور ان خاندانوں کے مطابق جنہوں نے ترک وطن کر کے کنیڈا، اسپین اور آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعد حالیہ مہینوں میں اسو سی ایٹڈ پریس سے بات کی، ہزاروں اسرائیلیوں نے ۷؍اکتوبر کے بعد سے ملک چھوڑنے کیلئے مالی، جذباتی اور سماجی نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب: سنیچر سے۸۹؍ دن طویل سردیوں کا موسم باضابطہ طور پر شروع ہوگیا

سرکاری اعداد وشمار
اسرائیل کے شماریات کے مرکزی ادارے نے ستمبر میں تخمینہ لگایا تھا کہ ۲۰۲۴ءکے پہلے سات مہینوں میں ۴۰؍ہزار ۶۰۰؍ اسرائیلیوں نے طویل عرصے کیلئے ملک چھوڑا تھا جو ایک سال پہلے کی اسی مدت کے مقابلے میں ۵۹؍ فیصد زیادہ تعداد ہے، جب۲۵؍ہزار ۵۰۰؍ لوگ ملک چھوڑ کر گئے تھے۔ سی بی ایس نے رپورٹ دی ہے کہ ۲۰۲۳ء کے مقابلے میں اس سال ہر ماہ۲۲۰۰؍زیادہ لوگ ملک چھوڑ کرگئے۔ اسرائیلی منسٹری آف امیگریشن اینڈ ایبزارپشن نے، جس کا تعلق ملک چھوڑ کر جانے والوں کے معاملات سے نہیں ہے، کہا ہے کہ جنگ کے آغاز سے ۳۳؍ہزار سے زیادہ لوگ اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔ ایک ترجمان نے کہاکہ وزیر داخلہ نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: غزہ قبرستان بن چکا ہے جس سے دنیا نے نظریں پھیر لی ہیں: امدادی ادارے

برین ڈرین کا خطرہ
کچھ دوسری علامات بھی یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیلیوں کی ایک نمایاں تعداد ملک سے روانہ ہورہی ہے۔ تل ابیب سوراسک میڈیکل سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر گل فائر نے کہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں چند سال کی فیلو شپ پوسٹنگ پر گئے ہوئے سینٹر کےکچھ ممتاز ماہرین نے واپس آنے سے گریز شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ سے قبل، وہ ہمیشہ واپس آجاتے تھے اور وہاں ٹھہرنےکے کسی خیال کودر حقیقت زیر غوار نہیں لایا جاتا تھا۔ جنگ کے دنوں میں ہم نے ایک تبدیلی دیکھنا شروع کی۔ انہوں نےہم سے کہا ’’ ہم ایک اور سال، اور ممکن ہے دو سال، یا ممکن ہے اس سے زیادہ ٹھہریں گے۔ ‘‘ فائر نے کہا کہ، یہ مسئلہ تشویش کا باعث ہے، اس حد تک کہ وہ ان ڈاکٹروں کو اسرائیل واپس لانے کی کوشش کیلئےان سے براہ راست ملاقات کیلئےان کے پاس جانے کا پروگرام بنا سکتےہیں۔ مشیل ہیرل، جو ۲۰۱۹ءمیں اپنے شوہر کے ساتھ ٹورنٹو منتقل ہوئی تھیں ، نےکہا کہ حملوں کے تقریباً فوراً بعد فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ دوسرے اسرائیلی کنیڈا منتقل ہونے کیلئے مشورےمانگنے لگے۔ اس جوڑے نے منتقلی کے خواہش مند اسرائیلیوں کی مدد کیلئے۲۳؍ نومبر۲۰۲۳ء کو ایک ویب سائٹ بنائی۔ 

یہ بھی پڑھئے: فرانس :نبیؐ کی شان میں گستاخی پر قتل کے الزام میں ۸؍ افراد کو سزا

نقل مکانی پر خرچ
ہیرل اور نقل مکانی سے متعلق دوسرے ماہرین نے کہا ہےکہ اس نقل مکانی میں کم ازکم ایک لاکھ اسرائیلی شیکلز، یا لگ بھگ ۲۸؍ہزار امریکی ڈالر تک خرچ ہو سکتے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل میں ہر ایک پیک اپ کر کے بیرون ملک منتقل ہو سکتاہے۔ جنہوں نے ایسا کیا ہے ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمتیں ہیں یا وہ ریموٹ طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ غزہ کے لوگ، جہاں صحت کے مقامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ۴۵؍ ہزارسے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، اس سے بھی کم ایسا کر نے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK