Updated: August 02, 2024, 2:47 PM IST
| London
ہند نژاد ۱۹؍ سالہ نوجوان لڑکی کورونا کے سبب ایک ایسی بیماری کا شکار تھی جو شاذونادر ہی کسی کو ہوتی ہے۔ اس نے موت کے بعد وہ مقدمہ جیت لیا جس میں وہ تجرباتی علاج کیلئے بیرون ملک جانا چاہتی تھی۔ کورٹ نے مانا کہ اس باہمت اور ذہنی طور پر مستحکم لڑکی کا ’’ جینے کی کوشش میں موت ‘‘ حق ہے۔
سودیکشا تھیروملیش۔ تصویر : ایکس
برطانیہ میں ہند نژاد ایک ۱۹؍ سالہ سودیکشا تھیروملیش جو ایک نایاب مرض سے متاثر تھی، نیشنل ہیلتھ سروس کے خلاف ایک مقدمہ لڑ رہی تھی، در اصل وہ طویل عرصے سے اس بیماری سے نبرد آزما تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے ادارے سے علاج کی امید میں اپنے اوپر تجرباتی علاج آزمانے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی تھی، جوگزشتہ سال اس کو دل کا دورہ پڑنے کے سبب موت کے وقت تک اسے تاعمر تک دردکشا نگہداشت کے مرکز میں داخل کرنے کے خلاف تھا۔
یہ بھی پڑھئے : غزہ جنگ کے ۳۰۰؍ دن: اسرائیلی ہٹ دھرمی برقرار، ۴۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق
سودیکشا کا منقسم خاندان مسلسل قانونی لڑائی لڑ رہا تھا، جن میں کچھ کا کہنا تھا کہ مریض کو اپنے علاج کے کورس طے کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ بدھ کو آنے والا یہ فیصلہ مستقبل میں اسی طرح کے دیگر معاملوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوگا۔ عدالت کے دستاویز کے مطابق سودیکشا اپنے تجرباتی علاج کیلئے شمالی امریکہ یا کنیڈا جانا چاہتی تھی، لیکن بشمول اس کے والدین ان کے خاندان کی آپس میں دو رائے تھی۔ عدالت نے مانا کے سودیکشا ذہنی طور پر صحت مند تھی، وہ اپنے علاج کے تعلق سے اپنی خواہش کا اظہار کر سکتی تھی۔ وہ ایک ۱۹؍ سالہ نوجوان لڑکی تھی، جو مکمل طور پر ہوش و حواس میں تھی، اور اپنے خاندان اور معالج سے آزادی کے ساتھ بات چیت کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اسے تجرباتی علاج کے دوران تمام ضروری نگہداشت فراہم کی جائے۔ اسے ’’جینے کی کوشش میں موت‘‘ کا نام دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے : آر ایس ایس پر لگی پابندی ختم، متعلقہ دستاویزات خفیہ رکھی جائیں گی
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جو بھی سودیکشا کے رابطہ میں آیا وہ اس بات پر متفق تھا کہ وہ ایک غیر معمولی نوجوان لڑکی ہے، جو پر عزم اور لچکدار شخصیت کی حامل تھی۔ ایک جج لیڈی کنگ نے اسے اجازت نامہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس باحوصلہ لڑکی کو اپنے علاج کے تعلق سے فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہئے، اور ’’جینے کی کوشش میں موت۔‘‘ یہ اس کا حق ہے۔‘‘