۲۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء کوعمر خالد کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ۱۶۰۰؍ دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس تعلق سے ملک بھر کے ۱۶۰؍ مصنفین، سماجی کارکنان اور فنکاروں نے ایک آزادانہ خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 30, 2025, 10:09 PM IST | New Delhi
۲۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء کوعمر خالد کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ۱۶۰۰؍ دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس تعلق سے ملک بھر کے ۱۶۰؍ مصنفین، سماجی کارکنان اور فنکاروں نے ایک آزادانہ خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سماجی کارکن اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عمر خالد کو ۲۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء یعنی بدھ کو تہاڑ جیل، دہلی میں ۱۶۰۰؍ دن مکمل ہوگئے ہیں۔ عمر خالد کو جیل میں ۱۶۰۰؍ دن مکمل ہونے پر ۱۶۰؍ مصنفین، ماہر تعلیم، فنکارو ںاور سماجی کارکنان نے آزادانہ خط لکھ کر عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ آزادانہ خط پردستخط کرنے والےا فراد میں مشہور تاریخ داں عرفان حبیب، رومیلا تھپر، تانیکا سرکار ، رامچندرگوہا ، رومیلا تھاپر، امیت گھوش، مشہور اداکار نصیر الدین شاہ ، عقیل بیلگرامی ، اسکالر گائتری چکرورتی، حقوق انسانی کے کارکن جون دایال ، آنند تیل تومبڈے اور دیگر شامل ہیں۔ آزادانہ خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’’عمر خالد کو جس دن جیل میں ۱۶۰۰؍ دن ہوئے ہیں اسی دن ہندوتوا گروپ کے ذریعے موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل کو آج ۷۷؍ ویں برسی مکمل ہوچکی ہے۔ خط میں حراست سے قبل عمر خالد کی تقریر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’گاندھی جی کے قتل کیلئے بھی وہی افراد قصوروار تھے جنہوں نے سی اے اے متعارف کروایا ہے جس کے خلاف ہم احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘
A stunning reflection on the state of Indian judiciary https://t.co/Dgstfql4DK
— RadhakrishnanRK, PhD. (@RKRadhakrishn) January 30, 2025
خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’’عمر خالد، جو حب الوطنی کی وکالت کرنےو الی اپنی تقریروں کیلئے جانے جاتے ہیں، سیکولرازم، اور آئینی اقدار، پر تشدد کو بھڑکانے کی سازش کرنے کے انتہائی ڈھٹائی سے مڑے ہوئے طریقے سے جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔‘‘ خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’’متعدد مرتبہ ضمانت کی عرضی مسترد کرنا اور کارروائی کے بغیر انہیں قید میں رکھنا، عمر خالد کے کسی کا سب سے ’’پریشان کن‘‘ پہلو ہے۔‘‘ خط میں ’’یو اے پی اے جیسے قوانین، جن سے ضمانت کاحصول مزید مشکل ہوجاتا ہے، کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ اس قانون کی وجہ سے کسی بھی فرد کو بغیر قصوروار ٹھہرائے یا بغیر کارروائی کے طویل عرصے تک قید میں رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا جشن منانے پر۱۲؍ فلسطینیوں کوحراست میں لے لیا
یاد رہے کہ عمر خالد کے علاوہ دیگر سماجی کارکنان کو بھی غیر قانونی کی حفاظت کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں اس لئے حراست میں نہیں لیا گیا تھا کیونکہ انہوںنے کسی شخص کو تشدد پر اکسایا تھا بلکہ ان کی حراست اس لئے عمل میں آئی تھی کیونکہ وہ امن اور انصاف کے مطالبے کیلئے کھڑے ہوئے تھے اور سی اے اے جیسے قانون کے خلاف عدم تشدد اختلاف کی وکالت کی تھی۔ خط میں گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرجیل امام، میران حیدر، عطر خان، شفاءالرحمٰن اور دیگر کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے متحد ہوکر سی اے اے کی مخالفت کی تھی۔‘‘خط میںعمر خالد کی ایک تقریرکا ذکر بھی کیاگیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم تشدد کا جواب تشدد سے نہیںدیں گے۔ ہم نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیں گے۔ اگر وہ نفرت پھیلا رہے ہیں تو ہم اس کا جواب محبت سے دیں گے۔ اگر وہ ہمیں لاٹھیوں سے مار رہے ہیں تو ہم پرچم لہرائیں گے۔ اگر وہ گولیاںبرساتیں ہیں تو ہم اپنے ہاتھوں میں آئین لے لیں گے۔‘‘خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’’اس کے باوجود حکام انتہائی ’’گمراہ کن جھوٹ اور مسخ شدہ حقائق ‘‘ کے سہارے انہیں پھنسانے کی کوشش کی۔‘‘
ٰیہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ نے شہروں میں نالیوں اور مین ہول کی دستی صفائی پر پابندی عائد کی
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں افسوس ہے کہ کس طرح عمر خالد جیسے روشن دماغ اور رحمدل نوجوان لڑکے ، جس کی تربیت تاریخ داں اور پرورش تنقیدی مفکر کے طور پر ہوئی ہے، کو آمرانہ حکومت کے ذریعے بدنام کیا گیا اور بار بار نشانہ بنایا گیا۔ہمیں امید ہے کہ ہم عمر خالداور اس جیسے شہریت کے کارکنان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ وہ ملک میں ’’اتحاد کے قیام‘‘ اور ’’بہترین مستقبل‘‘ میں شراکت داری کر سکیں۔‘‘یاد رہےکہ ۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو عمر خالدکو غیر قانونی سرگرمیوں کی حفاظت کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا ۔ دہلی تشدد کے نتیجے میں ۵۳؍افراد کی موت ہوئی تھی جن میں سے ۳۸؍ افراد مسلمان تھے۔