• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بچوں کو جنگ، موسمی بحران کے سبب تشدد وجنسی استحصال کا سامنا: اقوام متحدہ کی سفیر

Updated: October 10, 2024, 9:02 PM IST | Hague

مراکش سے تعلق رکھنے والی اقوام متحدہ کی سفیر ڈاکٹر نجات مجید نے بچوں پر ہونے والے تشدد کے تعلق سے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں دنیا بھر میں بچوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان کی وجوہات اور تدارک کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

اقوام متحدہ کی سفیر برائے وائلنس اگینسٹ چلڈرن نے متنبہ کیا ہے کہ نو عمروں کو جنگ، موسمی بحران، بھوک اور بے گھر ہونے کے سبب تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہونا پڑرہا ہے۔بچوں کے خلاف تشدد کی سفیر نجات مجید کا کہنا ہے کہ بچے نہ تو جنگ کے ذمہ دار ہیں، نہ موسمی بحران کے، لیکن وہ اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔نجات کے مطابق بچوں کے خلاف تشدد نے بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔مراکش سے تعلق رکھنے والی معالجہ اطفال نجات مجید نے اقوام متحدہ میں اپنی رپورٹ پیش کی ، جس کے مطابق بچوں کے خلاف بے رحمانہ تشدد اس سے قبل کبھی بھی اتنے فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتے تھے، ساتھ ہی ٹکنالوجی نے بھی ان جرائم کی جتنی معاونت کی ہے پہلے کبھی نہیں کی۔

یہ بھی پڑھئے: لبنان: ڈبلیو ایف پی کے ڈائریکٹر نے جنگ کے دوران غذائی بحران کے متعلق متنبہ کیا

ا س رپورٹ کے مطابق۲۰۲۲ء کے آخر تک ۴۵۰؍ ملین بچے جنگ زدہ خطے میں رہ رہے ہیں، اپریل کے آخر تک ۱۲۰ ؍ ملین بے گھر افراد میں سے ۴۰؍ فیصد بچےہیں۔اس کے علاوہ ۳۳۳؍ ملین بچے انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک بلین بچوں کے موسمی بحران سے بری طرح متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔جبکہ ۶۴۰؍ ملین بچے کم عمر کی شادی کا شکار ہیں۔یونیسیف کی دیگر رپورٹ کے مطابق ۳۷۰؍ ملین لڑکیاں اور خواتین اپنے بچپن میں جنسی زیادتی اور جنسی جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔مجید کے مطابق بچے بآسانی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ان میں مزدوری، غلامی، مسلح تصادم شامل ہیں۔انہوں نے متنبہ کیاکہ اگر سوڈان اور ہیتی جیسے علاقوں میں جنگ اور لاقانونیت اسی طرح جاری رہی تو تشددایک معمول بن کر رہ جائےگا۔ انہوں نے مزید خبر دار کیا کہ بچوں کے خلاف تشدد کے سبب ان کی ذہنی نشوونما نہیں ہو پاتی، ساتھ ہی ان کی تعلیم اور آئندہ زندگی میں تعمیری صلاحیتں بھی متاثرہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: جنگلی حیات کی آبادی میں۵۰؍ برسوں میں ۷۳؍ فیصد کمی واقع ہوئی ہے: ڈبلیو ڈبلیو ایف

مجید نے بتایا کہ عوامی سرمایہ کاری، کاروبار اور سول سوسائٹی کی شمولیت اور بچوں کو مشغول رکھنے کے سبب اس کا تدارک ممکن ہے۔ساتھ ہی قدامت پسندانہ پالیسی اور نظریات اس کے سد باب میں بڑی رکاوٹ ہیں۔نجات نےخبردار کیا کہ ہم انتہائی مشکل دور سے گزررہے ہیں۔ ’’ یہ بچے مستقبل کی نسلوں کے والدین ہوں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK