Updated: January 31, 2025, 1:04 PM IST
| Naypyidaw
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ نئی رپورٹ بعنوان’ `میانمار کا طویل کثیرالجہتی بحران: پُر آشوب سفر کے چار سال‘ میں بتایا گیا ہے کہ ملک تیزی سے سنگین مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ تقریباً نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ضروری خدمات تک رسائی محدود ہونے لگی ہے اور معیشت بدحالی کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 2020 سے میانمار کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں نو فیصد تک کمی آئی ہے۔ تصویر: آئی این این۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ نئی رپورٹ بعنوان’ `میانمار کا طویل کثیرالجہتی بحران: پُر آشوب سفر کے چار سال‘ میں بتایا گیا ہے کہ ملک تیزی سے سنگین مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ تقریباً نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ضروری خدمات تک رسائی محدود ہونے لگی ہے اور معیشت بدحالی کا شکار ہے۔
فی الوقت ملک کو درپیش سیاسی مسئلے کا حل دکھائی نہیں دیتا جس کے باعث بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ سال میں اندازہ ہو گا کہ ملک ان حالات کی تاب لا سکتا ہے یا نہیں۔ مکمل تباہی سے بچنے کے لیے عالمی برداری کو ہنگامی کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ مستحکم اور پرامن میانمار میں ہی اس کے ہمسایہ ممالک کا مفاد ہے۔
غیرقانونی معیشت کا فروغ
رپورٹ کے مطابق، ۲۰۲۰ء سے میانمار کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں نو فیصد تک کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال مہنگائی میں ۴ء۲۵؍فیصد اضافہ ہوا جس سے عام لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی۔ تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے ۲ء۲؍فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ملکی کرنسی (کیات) کی قدر میں بھاری کمی واقع ہوئی ہے اور اس وقت ایک ڈالر ۴۵۲۰؍کیات تک پہنچ گیا ہے جس کی قدر ۲۰۲۱ءمیں ۱۳۳۰؍کیات تھی۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے کے بعد ملک کے معاشی حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا۳۰؍ ہزار تارکین وطن کیلئے گوانتاناموبے میں حراستی مرکز تعمیر کرنے کا حکم
ان حالات میں غیرقانونی معیشت ترقی پا رہی ہے اور میانمار دنیا میں افیون اور ہیروئن برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جبکہ اس کا شمار میتھم فیٹامائن تیار کرنے والے چند بڑے ممالک میں بھی ہونے لگا ہے۔ علاوہ ازیں، ملک میں آن لائن جرائم، غیرقانونی جوئے اور انسانی سمگلنگ بھی عالمگیر تشویش کے حامل بڑے مسائل بن چکے ہیں۔
غذائی پیداوار کا بحران
میانمار میں خانہ جنگی کے نتیجے میں ۳۵؍ لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہو گئے ہیں اور لاکھوں نے تحفظ کی تلاش میں بیرون ملک نقل مکانی کی ہے۔ بھوک تباہ کن سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ چار سال میں عدم تحفظ اور موسمیاتی حوادث کے باعث زرعی پیداواری صلاحیت میں ۱۶؍فیصد تک کمی آئی ہے۔ ملک میں کھاد کی شدید قلت ہے، تیل کی قیمیتں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور تجارتی خلل کے باعث بعض علاقوں میں چاول کی قیمت میں ۴۷؍فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ان حالات میں مغربی ریاست راخائن کہیں متاثر ہوئی ہے جہاں رواں سال کے وسط تک خوراک کی پیداوار سے صرف ۲۰؍فیصد مقامی ضروریات ہی پوری ہو سکیں گی۔ خدمات عامہ کی صورتحال بھی انتہائی درجے کے بگاڑ کا شکار ہے اور ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو بجلی تک رسائی نہیں جبکہ کشیدگی کا شکار علاقوں میں بیشتر اسپتال غیرفعال ہو گئے ہیں۔
نوجوانوں کی نقل مکانی
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سلامتی اور معیشت کے حوالے سے درپیش سنگین مسائل کے باعث ملک کے نوجوان اچھے مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جا رہے ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں ۳۷؍لاکھ لوگوں نے تھائی لینڈ میں سکونت اختیار کی تھی۔ جو لوگ کڑے قانونی طریقہ ہائے کار کے باعث ہجرت نہیں کر سکتے انہیں فوج میں جبری بھرتیوں کا خطرہ لاحق ہے۔ خانہ جنگی اور معاشی مشکلات کے باعث تعلیمی سہولیات تک رسائی بھی متاثر ہوئی ہے اور اسکولوں میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی آ رہی ہے۔ ۲۰۲۳-۲۴ء کے تعلیمی سال میں ۲۰؍فیصد سے زیادہ بچے سکول جانے سے محروم رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: مسافر بردار طیارے اور ہیلی کاپٹر میں تصادم، ۱۸؍سے زائد افراد ہلاک
بہتری کے مواقع
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شدت اختیار کرتے بحران کے باوجود ملک کے لیے اچھے مستقبل کے مواقع بھی ہیں۔ مقامی لوگوں کی استقامت اور سول سوسائٹی کے اداروں کی صلاحیت سماجی ہم آہنگی بحال کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ تعلیم اور ہنر کی تربیت کے ذریعے لوگوں کی صلاحیتوں کو بہتری اور ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ کاروبار اور روزگار میں خواتین کے لیے مواقع بڑھا کر گھریلو آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ زراعت کی بحالی کے لیے موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی فصلیں اگانا اور آبپاشی کے نظام کو موثر بنانا ممکن اور ضروری ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی تحفظ پر سرمایہ کاری سے بھی مستقبل میں کئی طرح کے روزگار کو تحفظ مل سکتا ہے۔