یونیسیف نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی فوری طور پر اٹھائیں، کیونکہ افغانستان میں نیا تعلیمی سال شروع ہو گیا ہے۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اس پابندی کے ملک کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 8:33 PM IST | Kabul
یونیسیف نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی فوری طور پر اٹھائیں، کیونکہ افغانستان میں نیا تعلیمی سال شروع ہو گیا ہے۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اس پابندی کے ملک کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
افغانستان میں نیا تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے، لیکن تقریباً ۲۲؍لاکھ لڑکیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔ طالبان نے۲۰۲۱ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے سے روک دیا ہے، جس کی وجہ وہ اپنے تشریح کردہ شرعی قوانین بتاتے ہیں۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایسی پابندی نافذ ہے۔یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہاکہ ’’تین سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اگر ان ہونہار اور ذہین لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے سے روکا جاتا رہا، تو اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ: ۴۸؍ گھنٹوں میں ۱۳۰؍ جاں بحق، لبنان اور شام پر بھی حملے، اسرائیل میں احتجاج
یونیسیف کے مطابق، صرف اس سال مزید۴؍ لاکھ لڑکیاں اس پابندی سے متاثر ہوئی ہیں۔ اگر یہ پابندی۲۰۳۰ء تک جاری رہی، تو ادارے کے اندازے کے مطابق۴۰؍ لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو پرائمری سطح سے آگے تعلیم کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ رسل نے اس صورتحال کو ’’تباہ کن ‘‘قرار دیا۔تعلیم کے علاوہ، اس پابندی کا صحت کی دیکھ بھال پر بھی سنگین اثر پڑنے کا خدشہ ہے، کیونکہ خواتین ڈاکٹروں اور دائیوں کی تعداد میں کمی سے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ضروری طبی خدمات میسر نہیں ہوں گی۔ یونیسیف کے اندازے کے مطابق، اس کے نتیجے میں مزید ۱۶۰۰؍ زچگی کی اموات اور۳۵۰۰؍ سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی اموات واقع ہو سکتی ہیں۔رسل نے کہاکہ ’’ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں — یہ گم شدہ زندگیوں اور ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: نیتمبو نندی ندیتواہ نے نمیبیا کی پہلی خاتون صدر کے طور پر حلف لیا
واضح رہے کہ اس سال کے اوائل میں، طالبان کی قیادت والی حکومت نے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا، جہاں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک کو’’ صنفی عصبیت ‘‘قرار دیا تھا۔