Updated: October 12, 2024, 11:24 AM IST
| New Delhi
ہندوستان کی مرکزی امور خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے بلیو لائن پر لبنان اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کے پیش نظر فکر مندی کا اظہار کیا ہے۔جبکہ اسرائیل کے حملوں میں اقوام متحدہ کی عبوری امن فوج کے چار ارکان زخمی ہوگئے۔ ہندوستان کے بھی ۶۰۰؍ فوجی امن مشن میں بلیو لائن پر تعینات ہیں۔
جمعہ کو لبنان میں اسرائیلی حملے میں ہونے والی تباہی کا ایک منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی
مرکزی امور خارجہ نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ وہ لبنان کو اسرائیل اور گولان پہاڑیوں سے علیٰحدہ کرنے والے بلیو لائن پربڑھتی کشیدگی کے سبب فکر مند ہے۔بلیو لائن کوئی بین الاقوامی سرحد نہیں ہے دراصل ۱۶۰؍ کلومیٹر خط انخلاء ہے ، جو۲۰۰۰ء میں جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کی حد کی نشاندہی کرتی ہے۔نئی دہلی کا یہ بیان اسرائیل کے ذریعے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرپر حملے کے بعد آیا جس میں جمعرات کو اقوام متحدہ کی امن فوج کے دو ارکان زخمی ہو گئے تھے۔لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فوج ایک امن مشن ہے جسے مارچ ۱۹۷۸ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قائم کیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق ہندوستانی فوجی مشن کے۶۰۰ فوجی بلیو لائن پر تعینات ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اٹلی: ماحولیاتی رضاکار گریٹا تھنبرگ کی میلان میں فلسطین حامی ریلی میں شرکت
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ اقوام متحدہ کی حدود کا احترام کیا جا نا چاہئے، اور امن فوج کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدام کرنا چاہئے۔ہم ان حالات کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘ اس بیان کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی عبوری فوج نے اسرائیل کے ذریعے ایک نگرانی ٹاورپر کئے گئے حملے میں امن فوج کے مزید دو ارکان کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔ جبکہ اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا کہ امن فوج پر کسی بھی قسم کا حملہ بین الاقوامی قوانین اور سیکورٹی کاؤنسل کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غیر قانونی بستی کیلئے ’’یو این آر ڈبلیو اے‘‘ کا ہیڈکوارٹرس `ضبط کرے گا
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ جبکہ حزب اللہ اور اسرائیل گزشتہ دس ماہ سے روزانہ حملوں کے تبادلہ کر رہے ہیں۔اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ۱۴۰۰؍ لبنانی شہری، ڈاکٹر، جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ ۱۲؍ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ ۳؍لاکھ ۷۵؍ہزار افراد نقل مکانی کرکے شام چلے گئے ہیں۔ اس سے قبل مودی نے مشرقی ایشیا سمٹ میں مغربی ایشیا میں امن کی اپیل کی تھی۔ساتھ ہی کہا تھا کہ ’’ میں بودھ کی سرزمین سے آیا ہوں، یہ جنگ کا عہد نہیں ہے، جنگ کے میدان سے کسی بھی مسلے کا حل نہیں نکلتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’خودمختاری، علاقائی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کا احترام ضروری ہے۔ انسانی ہمدردی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دینی ہوگی۔‘‘