Updated: May 14, 2024, 4:36 PM IST
| Washington
غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں کو نسل کشی ماننے سے امریکہ نے انکار کر دیا ہے لیکن اس بات پر زور دیا کہ عام فلسطینوں کی ہلاکت کو روکنے کیلئے اسرائیل کو مزید اقدام کرنے چاہئے۔ ساتھ ہی اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے رفح پر اپنی پیشقدمی جاری رکھی تو امریکہ اسے ہتھیاروں کی ترسیل روک دے گا،اور فقط دفاعی ہتھایاروں کی فراہمی جاری رکھے گا۔
امریکہ نے پیر کو کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے لیکن اسرائیل کو فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنےہوں گے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ’’ہمیں یقین ہے کہ اسرائیل معصوم شہریوں کے تحفظ اور بہبود کو یقینی بنانےکیلئے مزیدجو کچھ کر سکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔ہم نہیں مانتے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔امریکہ نسل کشی کے لیے بین الاقوامی طور پر قبول شدہ اصطلاح استعمال کر رہا ہے، جس میں نسل کشی پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: رفح: طبی خدمات کی کمی، انٹرنیشنل ریڈ کراس نے جنوبی غزہ میں فیلڈ اسپتال بنائے
انہوں نے کہا کہ بائیڈن فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی شکست ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ تنازعات کے بیچ میں پھنسے فلسطینی شہری جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہ جو موت اور صدمے برداشت کر رہے ہیں وہ ناقابل تصور ہے۔
۸؍ مئی کو، بائیڈن نے کہا کہ اگراسرائیل غزہ کے جنوبی شہر رفح پر حملہ کرنے کے اپنے منصوبے پرعمل کرتا ہے تو وہ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک حصہ روک دیںگے۔ایسے میں امریکہ اسرائیل کو دفاعی ہتھیار فراہم کرتا رہے گا لیکن دوسرے ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے گا‘‘۔پیر کو سلیوان نے کہا کہ’’ ریاستہائے متحدہ کے صدر کا خیال ہے کہ رفح آپریشن کو ایک منصوبہ بند حکمت عملی سے جوڑنا چاہئے جس میں اس سوال کا بھی جواب بھی شامل ہوگا کہ `آگے کیا ہوگا؟‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’رفح پر اسرائیل کے حملے سے حماس کا خاتمہ نہیں ہوگا‘‘
غزہ پر اسرائیل کی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ۷؍اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل میں دراندازی کے نتیجے میں ۱۲۰۰؍افراد ہلاک ہوئے۔ عسکریت پسند گروپ نے ۲۰۰؍سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا۔اکتوبر سے اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری اور زمینی حملے کر رہا ہے۔ ان حملوں میں ۳۵؍ ہزار ۵۰۰؍سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۵۰۰؍سے زیادہ بچے شامل ہیں۔سنیچر کو اسرائیل نے رفح میں نئے انخلاء کے احکامات جاری کیے، جس کے نتیجے میں متعدد بے گھر فلسطینیوں کو دوسری جگہوں پر منتقل ہونا پڑا۔یہ حکم اسرائیلی فوج کی جانب سے شہر پر مکمل زمینی حملے کی تیاریوں کے درمیان آیا ہے، جہاں غزہ پر جنگ کے دوران ۱۰؍لاکھ سے زیادہ فلسطینی نقل مکانی کر چکے ہیں۔رفح کو غزہ میں فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کے غزہ کی طرف قبضہ کرنے سے پہلے یہ ایندھن کے داخلے کی اہم گزرگاہ تھی۔ اب فلسطینیوں کو غزہ کے شمال میں واپس جانے پر مجبور کیا جا رہاہے جو اسرائیلی فوج کے حملوں کی وجہ سے تباہ ہو چکاہے۔