غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب میں بائیڈـن کے ملوث ہونے پر امریکی انسانی حقوق گروپ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔درخواست میں امریکی معاونین کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا ۔
EPAPER
Updated: February 28, 2025, 7:01 PM IST | Washington
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب میں بائیڈـن کے ملوث ہونے پر امریکی انسانی حقوق گروپ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔درخواست میں امریکی معاونین کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا ۔
واشنگٹن میں قائم ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے بین الاقوامی فوجداری عدالت( آئی سی سی )میں سابق امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ پر غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم میں معاونت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ثبوت پیش کیا ہے۔۲۴؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کو پیش کی گئی دستاویز میں، ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ ( ڈاؤن )نے بائیڈن، سابق وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن،اور سابق سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن پر غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں معاونت اور فعال کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ درخواست میں امریکی حکومت کی اسرائیل کو وسیع فوجی ،سیاسی اور عوامی حمایت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ جس میں ۷؍ اکتوبر کے بعد سے ۱۷؍ اعشاریہ ۹؍ ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی ترسیل، خفیہ معلومات کا اشتراک، اور سفارتی حمایت شامل ہے۔جیسے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قرار داد کو بار بار ویٹو کرنا۔ ڈاؤن کے بورڈ رکن اور جنگی جرائم کے وکیل ریڈ بروڈی کے مطابق،آئی سی سی کی تحقیقات کیلئے مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: انسانی حقوق کی تنظیم کا اسرائیل پر فلسطینی قیدیوں پر گھناؤنے تشدد کا الزام
بروڈی نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ’’فلسطینی اسپتالوں، اسکولوں اور گھروں پر گرائے جانے والے بم امریکی ہیں۔ قتل اور ظلم و ستم کی مہم امریکی حمایت کے ساتھ چلائی گئی ہے۔ لہٰذا، ہم بین الاقوامی فوجداری قانون کے مستقبل کیلئے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، اور سوال یہ ہے کہ کیاآئی سی سی ، اور اس کے ساتھ بین الاقوامی انصاف کا وعدہ، غزہ کے ملبے میں دب جائے گا؟‘‘
واضح رہے کہ افراد اور تنظیمیں براہ راست آئی سی سی میں مقدمہ پیش نہیں کر سکتے، لیکن وہ پراسیکیوٹر کو معلومات یا ثبوت جمع کروا سکتے ہیں، جو ابتدائی جانچ کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اگر کافی ثبوت موجود ہوں، تو پراسیکیوٹرآئی سی سی کی پری ٹرائل چیمبر سے رسمی تحقیقات شروع کرنے کی اجازت مانگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ آئی سی سی کے رکن ہیں، لیکن عدالت کا دائرہ اختیار رکن ممالک کے علاقوں میں یا رکن ممالک کے شہریوں کے ذریعے کیے گئے جرائم تک پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ آئی سی سی نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا، لہٰذاان علاقوں میں جنگی جرائم میں معاونت کرنے پر آئی سی سی کے ذریعے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یوں تو اصول ہےکہ جب سنگین جرم کئے جاتے ہیں تو کوئی ریاست یا لیڈر قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے، لیکن تاریخ اس کے بر عکس ہے۔ امریکہ کی جانب سے قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے میں ہمیشہ رخنہ اندازی کی گئی۔ جب تحقیقات امریکی یا اسرائیلی اقدامات کو نشانہ بناتی ہیں تو بین الاقوامی قانونی تنظیموں پر سیاسی اور معاشی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔بروڈی تبصرہ کرتے ہیں کہ’’ امریکہ نے عدالت پر پابندیاں عائد کیں کیونکہ اپنی۲۲؍ سالہ تاریخ میں پہلی بار، اس نے ایک امریکی اتحادی پر مقدمہ چلایا۔ درحقیقت، دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تقریباً کسی بین الاقوامی عدالت نے ایسا نہیں کیا تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی قید سے۶۴۲؍فلسطینی رہا، غزہ میں والہانہ استقبال
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’امریکی عہدیدار جنہوں نے ایسے جرائم میں معاونت کی ہے، ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور چلایا جانا چاہیے، چاہے وہ ابھی طاقت میں ہوں۔ یہ اس بات کو قائم کرنےکیلئے اہم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے عہدیدار بھی – قانون کی پابندی سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔‘‘ ڈاؤن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لیہ وہٹسن کہتی ہیں، کہ ’’نہ صرف بائیڈن، بلنکن، اور آسٹن نے اسرائیل کے گھناؤنے اور جان بوجھ کر کیے گئے جرائم کے واضح ثبوت کو نظر انداز کیا اور جواز پیش کیا، بلکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کے اپنے عملے کے مشوروں کو بھی مسترد کر دیا۔ انہوں نے اسرائیل کو بلا شرط فوجی اور سیاسی حمایت فراہم کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے مظالم کو جاری رکھ سکے۔‘‘
دراصل ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے، نسل کشی کرنے، انسانی حقوق کی پامالی،جیسے الزامات لگے ہیں ،اس کے علاوہ بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کو نسل کشی کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔