رپورٹس کے مطابق، امریکہ اور اسرائیل نے غزہ پٹی سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے بعد انہیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کیلئے مشرقی افریقہ کے ۳ ممالک، سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 14, 2025, 9:51 PM IST | Inquilab News Network | Jerusalem / Washington / Tel Aviv
رپورٹس کے مطابق، امریکہ اور اسرائیل نے غزہ پٹی سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے بعد انہیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کیلئے مشرقی افریقہ کے ۳ ممالک، سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطہ کیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام نے بتایا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبہ کے تحت غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اپنے علاقوں میں بسانے کیلئے مشرقی افریقہ کے تین ممالک سوڈان، صومالیہ اور صومالیہ سے علاحدہ ہونے والے خطہ صومالی لینڈ سے رابطہ کیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کی عکاسی کرتی ہے جس کی عرب دنیا سمیت کئی دیگر ممالک مذمت کر چکے ہیں اور اس کے سنگین قانونی اور اخلاقی مسائل کو اٹھایا گیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے ذریعے رابطہ کئے گئے تینوں ممالک تشدد کی زد میں ہیں، جس نے ٹرمپ کے غزہ کے فلسطینیوں کو "ایک خوبصورت علاقہ" میں آباد کرنے کے وعدے کو بھی سوالات کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی اور اسرائیلی حکام نے صومالیہ اور صومالی لینڈ کے ساتھ رابطہ کئے جانے کی تصدیق کی جبکہ امریکیوں نے سوڈان سے رابطہ کی تصدیق کی۔ تاہم، وہ یہ واضح نہیں بتا پائے کہ ان کوششوں میں کتنی پیش رفت ہوئی یا کس سطح پر بات چیت ہوئی۔ سوڈان کے عہدیداران نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ کی پیش کردہ تجویز کو مسترد کردیا ہے جبکہ صومالی لینڈ کے حکام نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ اس پیش رفت سے آگاہ نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اسرائیل اور امریکہ ان ۳ ممالک کو اپنے علاقوں میں فلسطینیوں کی بازآبادکاری کیلئے منانے کیلئے مالی، سفارتی اور سیکیوریٹی تعاون کی پیشکش کرسکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے رسائی کی کوششوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور ان کے معتمد اور اور کابینہ وزیر رون ڈرمر کے دفاتر نے اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ جو طویل عرصہ سے فلسطینیوں کی "رضاکارانہ" ہجرت کی حمایت کرتے آئے ہیں نے گزشتہ دنوں بتایا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو قبول کرنے کیلئے دیگر ممالک کی نشاندہی کررہا ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے تحت ایک "بہت بڑا امیگریشن ڈیپارٹمنٹ" قائم کیاجائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: محمود خلیل کی حمایت میں یہودی مظاہرین کا ٹرمپ ٹاور کے باہر زبردست احتجاج
سوڈان نے انکار کردیا
سوڈان، ان ۴ افریقی ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے ۲۰۲۰ء میں ابراہیم معاہدہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا تھا۔ ۲ سوڈانی عہدیداروں نے تصدیق کی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کو قبول کرنے کے تعلق سے فوجی قیادت والی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل امریکہ نے سوڈان سے رابطہ کیا تھا اور انہیں باغی افواج آر ایس ایف کے خلاف فوجی مدد، جنگ کے بعد تعمیر نو میں مدد اور دیگر مراعات کی پیشکش کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق، خرطوم کو قرضوں سے نجات، ہتھیار، ٹیکنالوجی اور سفارتی مدد سمیت دیگر مراعات بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ تاہم، دونوں عہدیداروں نے کہا کہ سوڈانی حکومت نے اس خیال کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔ سوڈان کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان نے گزشتہ ہفتے قاہرہ میں عرب لیڈران کے اجلاس میں کہا تھا کہ ان کا ملک کسی بھی ایسے منصوبے کو "صاف الفاظ میں مسترد" کرتا ہے جس کا مقصد "فلسطینی برادران کو ان کی سرزمین سے کسی بھی جواز یا نام کے تحت منتقل کرنا ہو۔"
یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارے میں رمضان: سب بکھرا ہوا، سبھی بے گھر ہیں: فلسطینیوں کا درد
صومالی لینڈ سے رابطہ نہیں کیا گیا
صومالیہ سے ۳۰ سال قبل الگ ہوئے اس علاقہ میں ۳۰ لاکھ سے زائد آبادی رہائش پذیر ہیں۔ اسے بین الاقوامی سطح پر ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ صومالیہ صومالی لینڈ کو اپنی سرزمین کا حصہ سمجھتا ہے۔
صومالی لینڈ کے نئے صدر عبدالرحمان محمد عبداللہی نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کئے جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے تصدیق کی کہ امریکہ "صومالی لینڈ کے ساتھ رابطہ میں ہے اور فلسطینیوں کو بسانے کیلئے راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بدلے صومالی لینڈ کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ صومالی لینڈ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت سے رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور امریکہ فلسطینیوں کو قبول کرنے کے متعلق بات نہیں کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مراکشی ڈچ ڈیزائنرعزیز بکاوی نے اپنے فیشن سے عالم میں فلسطینی مزاحمت کوزندہ رکھا
صومالیہ نے تصدیق نہیں کی
صومالیہ، فلسطینیوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔ وہاں اکثر فلسطینیوں کی حمایت میں پر امن مظاہرے بھی ہوتے ہیں۔ صومالیہ نے حالیہ عرب سربراہی اجلاس میں شمولیت اختیار کی جس نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔ ایک صومالی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ غزہ سے بے دخل فلسطینیوں کو قبول کرنے کے سلسلہ میں ملک سے رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی بات چیت ہوئی ہے۔
ٹرمپ کا منصوبہ
گزشتہ ماہ ٹرمپ نے غزہ کے ۲۰ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو مستقل طور پر کسی "خوبصورت علاقہ" میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ انہوں نے تجویز کیا تھا کہ امریکہ، غزہ کی ذمہ داری لے گا اور اپنی نگرانی میں ملبہ کی صفائی کروائے گا اور اسے ریئل اسٹیٹ پروجیکٹ میں بدل دے گا۔ نیتن یاہو نے اسے ایک ’’جرات مندانہ وژن‘‘ قرار دیا تھا۔ غزہ کے فلسطینیوں نے ٹرمپ کی تجویز کو مکمل طور پر مسترد کردیا اور اسرائیل کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ غزہ کے باشندوں کی روانگی رضاکارانہ ہو گی۔ عرب ممالک نے اس منصوبہ کی شدید مخالفت کی تھی۔ بعد ازیں، مصر میں ایک سربراہی اجلاس میں عرب ممالک نے مصر کے پیش کردہ غزہ کی تعمیر نو کے متبادل منصوبہ کو قبول کرلیا جس کیلئے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے زور دیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے کیلئے مجبور کرنا یا دباؤ ڈالنا، ایک ممکنہ جنگی جرم ہوگا۔ اس کے باوجود، وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ "اپنے وژن پر قائم ہیں۔"