مراکشی ڈچ ڈیزائنرعزیز بکاوی نے اپنی فیشن مصنوعات سے عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو جلا بخشی۔ انہوں نے فیشن کو فیشن کو ثقافتی مزاحمت کی ایک شکل کے طور پر استعمال کیا، ساتھ ہی فلسطینی ورثے کو ظلم کے خلاف ایک بڑے بیانئے میں تبدیل کر دیا۔
EPAPER
Updated: March 13, 2025, 7:37 PM IST | Amsterdam
مراکشی ڈچ ڈیزائنرعزیز بکاوی نے اپنی فیشن مصنوعات سے عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو جلا بخشی۔ انہوں نے فیشن کو فیشن کو ثقافتی مزاحمت کی ایک شکل کے طور پر استعمال کیا، ساتھ ہی فلسطینی ورثے کو ظلم کے خلاف ایک بڑے بیانئے میں تبدیل کر دیا۔
فیشن طویل عرصے سے سیاسی اظہار کا ایک ذریعہ رہا ہے۔۱۹۶۰ء کی دہائی کی جنگ مخالف تحریکوں سے لے کر آج کے عالمی انصافکیلئے جدوجہد تک، کپڑوں نے مزاحمت، یکجہتی اور تحفظ کے پیغامات کو پیش کیا ہے۔ اس فیشن کی طاقت کو عزیز بکاؤئی سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا، جو مراکش میں پیدا ہونے والے ڈچ ڈیزائنر ہیں اور جن کا کام فلسطینی شناخت کو فروغ دیتا ہے۔بکاؤئی پہلے بڑے ڈیزائنرز میں سے ہیںجنہوں نے کیٹ واک کو فلسطینی یکجہتیکیلئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ ان کیلئے، فیشن ہمیشہ سے جمالیات سے زیادہ ، ایک زبان، احتجاج کی ایک شکل اور اکثر خاموش رہنے والی آوازوں کو بلند کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کا۲۰۱۴؍کا ’’ورلڈ کوفیہ ڈےکلیکشن ‘‘ایک اہم موڑ تھا، جس نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح اسٹائل ثقافتی مزاحمت کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے ٹی آرٹی ورلڈ کو بتایاکہ ’’کوفیہ پیٹرن اور فلسطینی پرچم کو احتیاط سے تیار کردہ، لازوال ٹکڑوں میں شامل کرکے، یہ کلیکشن فلسطینی ورثے کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور اسے ایک پائیدار، آواز فراہم کرتا ہے۔‘‘ ان کے ڈیزائن سے حاصل ہونے والے منافع کا ایک حصہ فلسطین کی حمایت کیلئے ’’میزون فلسطین‘‘ فاؤنڈیشن کو دیا جاتا ہے، جو آزاد صحافیوں، کارکنوں، فنکاروں، اور رائے سازوں کو فنڈ فراہم کرتا ہے جو فلسطینی جدوجہد کے بارے میں آگاہی بڑھانےکیلئے وقف ہیں۔
مراکش کے برکانے میں پیدا ہونے والے بکاؤئی چھ سال کی عمر میں نیدرلینڈ ہجرت کر گئے۔ اپنے والدین کی بدولت، ان کی پرورش فلسطینی مسئلے کے بارے میں گہری آگاہی کے ساتھ ہوئی۔ ابتدائی طور پر تعمیرات اور بصری فنون کی طرف مائل ہونے والے بکاؤئی کا تخلیقی سفر انہیں آرٹ ای زیڈ یونیورسٹی آف آرٹس میں فیشن ڈیزائن تک لے گیا، جہاں انہوں نے متعدد تخلیقی شعبوں کو دریافت کیا۔ آج، نیدرلینڈز کے سب سے مشہور ڈیزائنرز میں سے ایک کے طور پر، وہ فیشن کو اظہار کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں جو لوگوں کو سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ آج، اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری کے سببفلسطینی علامتیں — زیتون کے درختوں سے لے کر تربوز تک — یکجہتی کی علامت بن کر ابھری ہیں، جو یونیورسٹی کیمپس سے لے کر پارلیمنٹ ہال اور ریڈ کارپٹ ایونٹس تک ہر جگہ پہنی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: محمود خلیل کی گرفتاری ’’غلط نظیر‘‘، کانگریس ارکان نے رہائی کا مطالبہ کیا
بکاؤئی کے لیے، روایت کو خراج تحسین پیش کرنے کا مطلب ہے اس کی جڑوں کو سمجھنا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کوئی چیز کہاں سے آتی ہے؟ کس سیاق و سباق سے؟ یہ کیوں وجود میں آیا؟ کسی چیز کے وجود میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کیسے بنا؟ کون سے مواد اور تکنیک استعمال ہوئے؟انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح ان سوالات نے ان کے ’’ورلڈ کوفیہ کلیکشن ‘‘کو تشکیل دیا، جو ٹلبرگ کے ٹیکسٹائل میوزیم کے تعاون سے تیار کیا گیا۔ تاہم، جب کہ بکاؤئی کا کام کوفیہ کی ثقافتی اہمیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، دوسروں نے اسے ایک تجارتی رجحان میں تبدیل کر دیا ہے۔
۲۰۱۷ءمیں، کپڑوں کے ریٹیلر ٹاپ شاپ نے فلسطینی اسکارف کو ’’اسکارف پلے سوٹ‘‘ میں تبدیل کیا، جب کہ ’’ اربن آؤٹ فٹرس ‘‘ نے۲۰۰۷ء میں کثیر رنگ کے ورژن پیش کیے، جنہیں بعد میں ’’اس چیز کے حساس ہونے کی وجہ سے‘‘واپس لے لیا گیا۔ لگژری برانڈز نے بھی کوفیہ سے فائدہ اٹھایا ہے۔’’ بلینشیاگا‘‘نے اپنے۲۰۰۷ء کے ’’ٹریولر کلیکشن ‘‘ میں اسے شامل کیا، جب کہ’’ لوئس ‘‘نے ۲۰۲۱ءمیں مونوگرام والے ورژن سیکڑوں ڈالر میں فروخت کیے۔ دریں اثنا، فلسطین کی آخری کوفیہ مینوفیکچرر، الخلیل کی حرباوی فیکٹری، اسرائیلی قبضے کے تحت بڑے پیمانے پر تیار کردہ نقلوں اور معاشی تنگی کے خلاف بقا کی جدوجہد کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارے میں رمضان: سب بکھرا ہوا، سبھی بے گھر ہیں: فلسطینیوں کا درد
حالانکہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے کوفیہ کو انتہاپسندی کی علامت کے طور پر ظاہر کیا جانے لگا، اور کئی ممالک نے اس کے خلاف متعدد اقدامات کئے۔انڈسٹری کی خاموشی کے باوجود، بکاؤئی اپنے مشن پر ثابت قدم ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ’’میں مزاحمت اور انصاف کے موضوعات کو شامل کرتا رہوں گا، فیشن کو آگاہی بڑھانے اور ان کی آوازوں کو بلند کرنے کیلئے ایک طاقتور ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا رہوں گا — جب تک کہ فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا۔‘‘