مقدمہ میں دعویٰ کیا گیا کہ محکمہ خزانہ غیر قانونی طور پر ٹیکس دہندگان، سوشل سیکیوریٹی وصول کنندگان اور دیگر شہریوں کا مالی ڈیٹا، مسک کے محکمہ کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 12:47 PM IST | Inquilab News Network | Washington
مقدمہ میں دعویٰ کیا گیا کہ محکمہ خزانہ غیر قانونی طور پر ٹیکس دہندگان، سوشل سیکیوریٹی وصول کنندگان اور دیگر شہریوں کا مالی ڈیٹا، مسک کے محکمہ کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
امریکہ کی ایک وفاقی جج نے عندیہ دیا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ پر لاکھوں شہریوں کے مالیاتی ڈیٹا کو ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفشنسی (ڈی او جی ای) کے ساتھ شیئر کرنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران، امریکی ڈسٹرکٹ جج کولین کولر-کوٹیلی، الائنس فار ریٹائرڈ امریکنس، امریکن فیڈریشن آف گورنمنٹ ایمپلائز اور سروس ایمپلائز انٹرنیشنل یونین کی جانب سے محکمہ خزانہ کے سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ کے خلاف دائر کئے گئے مقدمہ کی سماعت کر رہی تھیں جس میں محکمہ خزانہ پر وفاقی رازداری قوانین اور آئی آر ایس قواعد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔ جج نے حکومت کے اس دعوے پر سوال اٹھایا کہ محکمہ خزانہ کے صرف ۲ ملازم ٹام کراؤس اور مارکو ایلز کو اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے۔ تینوں یونین کے وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ شہریوں کی ذاتی معلومات اب بھی غیر محفوظ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کی سفاکیت، تارکین وطن کو بدنام زمانہ گوانتا نامو بے جیل منتقل کرنا شروع کردیا
امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیش ہوئے وکیل بریڈلی پی. ہمفریز نے وضاحت کی کہ صرف مارکو ایلز کو براہ راست رسائی حاصل ہے جبکہ کراؤس کو صرف بریفنگ دی جاتی ہے۔ جج نے دریافت کیا کہ آیا ایلون مسک نے ذاتی طور پر اس معلومات کو دیکھا ہے، جواب میں ہمفریز نے اصرار کیا کہ ایسا نہیں ہوا۔ تاہم، تینوں یونین کو اب بھی خدشہ ہے کہ حساس مالی ڈیٹا تک غیر مجاز رسائی بڑے پیمانے پر رازداری کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ایلون مسک کی بڑھتی طاقت امریکی بیوروکریسی کیلئے درد سر
مقدمہ میں دعویٰ کیا گیا کہ محکمہ خزانہ غیر قانونی طور پر ٹیکس دہندگان، سوشل سیکیوریٹی وصول کنندگان اور دیگر شہریوں کا مالی ڈیٹا، مسک کے محکمہ کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ جج نے تجویز دی کہ مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے تک، صرف کراوس اور ایلز کو اس ڈیٹا تک رسائی دی جائے۔ فریقین کو عدالتی حکم نامہ کی زبان پر متفق ہونے کیلئے وقت دیا گیا لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ جج نے انہیں ہدایت دی کہ وہ رات بھر اس مسئلے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت دی۔