Updated: March 11, 2025, 10:05 PM IST
| Washington
مشی گن سے ڈیموکریٹک نمائندہ رشیدہ طالب نے پیر کو، محمود خلیل کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ خیال رہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کے لیڈر طالب علم محمود خلیل پر الزام ہے کہ وہ یونیورسٹی میں فلسطین حامی مظاہروں کے محرک تھے۔
محمود خلیل۔ تصویر: آئی این این
امریکہ کے ایک وفاقی جج نے فلسطین حامی اور امریکہ کے مستقل رہائشی محمود خلیل کو ملک بدری کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کپر عارضی طور پر روک لگا دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ایک بڑا جھٹکا دیتے ہوئے جج جیسی فرمن نے پیر کی فائلنگ میں کہا کہ اس معاملہ میں عدالت کے ذریعے فیصلہ سنائے جانے تک درخواست گزار کو تک امریکہ سے نہیں نکالا جائے گا یہاں تک کہ عدالت اس کا حکم دے۔ فرمن نے بدھ کو عدالتی کانفرنس بھی مقرر کی۔ واضح رہے کہ امیگریشن افسران نے گزشتہ ہفتے سنیچر کو غزہ کی وکالت کرنے والے خلیل کو گرفتار کرلیا۔ اسے لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں بھیجا گیا ہے۔
ٹرمپ کا ردِعمل
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خلیل کی گرفتاری کی ستائش کی اور خبردار کیا کہ یہ پہلی گرفتاری ہے اور اس کے بعد بھی کئی گرفتاریاں ہوگی۔ ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، ہم جانتے ہیں کہ کولمبیا اور ملک بھر کی دیگر یونیورسٹیوں میں کئی طلبہ ہیں جو دہشت گردی کے حامی ہیں اور یہود مخالف، امریکہ مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ہم ان دہشت گردوں کے ہمدردوں کو اپنے ملک سے ڈھونڈیں گے، پکڑیں گے اور ملک بدر کر دیں گے اور وہ پھر دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: وہائٹ ہاؤس کی قریبی سڑک سے ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ میورل نکال دیا گیا
گرفتاری کے بعد عوام میں غم و غصہ
امیگریشن ایجنسی کے ذریعہ خلیل کی گرفتاری نے عوام سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ امریکی راجدھانی واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک میں ہزاروں افراد نے خلیل کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ خلیل کی رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے مظاہرین نے پیر کو مین ہٹن میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کے فیلڈ آفس کے قریب ریلی نکالی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ریلی میں شریک نیویارک یونیورسٹی کے ایک طالب علم ابتہال مالیے نے کہا کہ خلیل کو گرفتار کر کے ٹرمپ سوچتے ہیں کہ وہ ہم سے ہمارے حقوق چھین سکتے ہیں اور ہم سے ہمارے لوگوں کے ساتھ ہماری وابستگی کو چھین سکتے ہیں۔ وہ غلط ہیں۔
امریکی قانون سازوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے خلیل کی گرفتاری پر تنقید کی۔ مشی گن سے ڈیموکریٹک نمائندہ رشیدہ طالب نے پیر کو، خلیل کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فاشسٹ پلے بک سے باہر ہے۔ اختلاف رائے کو جرم قرار دینا ہمارے قانون اور آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے۔ کسی کی سیاسی رائے کی بنیاد پر اس کا گرین کارڈ کو منسوخ کرنا غیر قانونی ہے۔ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ’’خود جلاوطنی‘‘ کے آپشن کے ساتھ اسائلم فون ایپ دوبارہ لانچ
نیویارک کے نمائندے الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے خبردار کیا کہ یہ گرفتاری ایک خطرناک مثال قائم کر سکتی ہے۔ کورٹیز نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ اگر وفاقی حکومت بغیر کسی وجہ یا وارنٹ کے قانونی امریکی مستقل باشندے کو غائب کر سکتی ہے، تو وہ امریکی شہریوں کو بھی غائب کر سکتی ہے۔ ہر شخص چاہے وہ بائیں، دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہو اسے ہوشیار ہو جانا چاہئے۔ نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس گرفتاری کو "غیر قانونی" قرار دیا۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے خلیل کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے محکمہ ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے اقدامات کی مذمت کی اور کہا کہ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا خلیل کو نسل کشی کے خلاف اس کی پر امن سرگرمی کی وجہ سے گرفتار کرنے کا غیر قانونی فیصلہ پہلی ترمیم کی آزادی اظہار رائے، امیگریشن قوانین اور فلسطینیوں کی انسانیت کی ضمانت پر ایک صریح حملہ ہے۔ ہم اور شہری حقوق کے دیگر گروپ محمود کے قانونی مشیر کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ:غزہ جنگ کے بعد مسلمان اور عرب مخالف واقعات میں اضافہ
"غلطی سے گرفتار کیا گیا..."
خلیل کی اٹارنی ایمی گریر کے مطابق، اسے آئی سی ای ایجنٹوں نے "غلطی سے گرفتار" کیا تھا جن کا دعویٰ تھا کہ اس کا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ محمود ایک قانونی مستقل رہائشی (گرین کارڈ) ہے اور امریکہ میں اسٹوڈنٹ ویزا پر مقیم نہیں ہے۔ گریر نے ایک بیان میں کہا کہ ہم عدالت میں محمود کے حقوق کی مکمل پیروی کریں گے اور اس کے خلاف کی گئی خوفناک اور ناقابل معافی غلطی کو درست کرنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
گریر نے امریکی حکومت پر غزہ میں اسرائیلی حملوں پر تنقید کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ امریکی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطین حامی بیانیہ کو دبانے کیلئے امیگریشن ایجنسیوں کو ایک آلے کے طور پر استعمال کریں گے۔ اٹارنی کے مطابق، سنیچر کی رات خلیل اپنے یونیورسٹی اپارٹمنٹ میں تھا جب امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کے کئی ایجنٹ وہاں پہنچے اور اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ واضح رہے کہ خلیل نے کولمبیا کے اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز سے گزشتہ سمسٹر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کے حامی کیمپ کی قیادت میں مدد کی تھی۔