Updated: January 10, 2025, 10:04 PM IST
| Washington
۲۰۱۶ء سے ڈونالڈ ٹرمپ ’’ہش منی‘‘ معاملےمیں مقدمہ کا سامنا کررہے تھے۔ تاہم، ۱۰؍ جنوری کو امریکی عدالت نے انہیں مجرم تو قرار دیا مگر کوئی سزا نہیں سنائی۔ اس طرح ۲۰؍ جنوری کو وہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے فرد بن جائیں گے جنہیں کسی سنگین جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
ٹرمپ ورچوئل طریقے سے کورٹ میں حاضر ہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جمعہ کو ان کے حلف لینے سے صرف ۱۰؍ دن پہلے ’’ہش منی‘‘ جرم کے معاملے میں غیر مشروط ڈسچارج کی سزا سنائی گئی۔ یعنی انہیں مجرم قرار دیا مگر سزا نہیں دی گئی۔ اس طرح وہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے فرد بن جائیں گے جنہیں کسی سنگین جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔ ٹرمپ کے وکیل ٹوڈ بلانچ نے کہا کہ قانونی ٹیم فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ مقدمہ قانونی طور پر نامناسب ہے اور بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ اس کی پیروی نہیں کی جانی چاہئے تھی۔ سزا سنانے کے دوران، ٹرمپ نے اپنی بے گناہی برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ میں مکمل طور پر بے قصور ہوں۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے۔اپنے خلاف الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے اس کیس کو ’’سیاسی ہتھکنڈہ‘‘ قرار دیا جس کا مقصد ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پاکستان:عمران خان نے ملک میں دس سالہ آمریت مسلط کرنے کے منصوبے سے خبر دار کیا
واضح رہے کہ چند دنوں قبل بی بی سی نے اطلاع دی تھی کہ نیو یارک کے جج یوان مرشان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کو قید کی سزا، پروبیشن یا جرمانے کی سزا نہیں سنائیں گے بلکہ انہیںغیر مشروط طور پر رہا کر دیں گے۔ انہوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ نو منتخب صدر یا ورچوئل حیثیت میں اس سماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ٹرمپ نے صدارتی الیکشن میں فتح کے ذریعے اپنے خلاف اس کیس کو ختم کروانے کی کوشش کی تھی۔ کیس کو سزا کے مرحلے تک لے جانے پر ان کے وکلا ء نے جج کے فیصلے پر تنقید کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اسے فوراً ختم کر دیا جائے۔اس کیس میں سابقہ پورن اسٹار اسٹورمی ڈینیئلز کا دعویٰ تھا کہ۲۰۱۶ء میں جب ٹرمپ صدارتی امیدوار تھے تو انہوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ۳۰؍ ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کئے کہ وہ ٹرمپ سے جنسی تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔
یہ بھی پڑھئے: اقوامِ متحدہ، جنسی تشدد کی بلیک لسٹ میں اسرائیل کو شامل کرے: یورومیڈ ہیومن رائٹس مانیٹر
نیو یارک کی عدالت میں اس دیوانی مقدمے میں جیوری نے تمام ۳۴؍ الزامات میں ٹرمپ کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔ ٹرمپ کو۲۶؍ نومبر کو سزا سنانی تھی مگر اسے موخر کیا گیا۔قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ کو پہلی بار اس نوعیت کے جرائم میں قصوروار پایا گیا اور وہ معمر ہیں لہٰذا اس بات کے کم امکان ہیں کہ انہیں جیل جانا پڑے۔ ٹرمپ کے وکیل اس کیس میں اپیل دائر کر سکتے ہیں اور وہ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جیل جانے سے ان کی سرکاری خدمات میں خلل آئے گالہٰذا وہ اپیل پر کارروائی تک آزاد رہیں گے۔ اپیل کا عمل کئی برس تک چل سکتا ہے۔