امریکی محکمہ انصاف نے جمعہ کو اس متنازع پالیسی پر ہفتوں کی قانونی چھان بین اور زائد از ۲۳ ریاستوں میں دائر کردہ ۱۰۰ سے زائد مقدمات کے بعد اسے واپس لینے کا اعلان کیا۔ انتظامیہ کے ان اقدامات کے خلاف ۵۰ سے زائد مقدمات میں ججوں نے طلبہ کے ویزوں کی منسوخی کو غیر قانونی اور من مانی پر مبنی عمل قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے ملک میں زیر تعلیم ہزاروں غیر ملکی طلبہ کیلئے ویزا رجسٹریشن کی خدمات بحال کردی ہیں۔ واضح رہے کہ انتظامیہ نے معمولی قانونی خلاف ورزیوں کے الزامات میں ہزاروں طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیئے تھے جس کے بعد متاثرہ طلبہ کو کلاسیز میں شرکت کرنے یا تحقیق کرنے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھنے اور امریکہ سے ملک بدر کئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
پولیٹیکو کے مطابق، امریکی محکمہ انصاف نے جمعہ کو وفاقی عدالت میں اس متنازع پالیسی پر ہفتوں کی قانونی چھان بین اور زائد از ۲۳ ریاستوں میں دائر کردہ ۱۰۰ سے زائد مقدمات کے بعد اسے کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ انتظامیہ کے ان اقدامات کے خلاف ۵۰ سے زائد مقدمات میں ججوں نے عارضی احکامات جاری کئے ہیں اور طلبہ کے ویزوں کی منسوخی کو غیر قانونی اور من مانی پر مبنی عمل قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف ٹیرف پر ۱۲؍ ریاستوں نے مقدمہ دائر کر دیا
طلبہ کے ویزا کی منسوخیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم انسائیڈ ہائر ایڈ کے مطابق، ۲۴ اپریل تک ۲۸۰ سے زائد کالجز اور یونیورسٹیوں نے رپورٹ کیا کہ محکمہ خارجہ نے ۱۸۰۰ سے زائد بین الاقوامی طلبہ اور حال ہی میں فارغ التحصیل افراد کی قانونی حیثیت کو تبدیل کیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا محکمہ خارجہ کی جانب سے ایسے طلبہ کو نشانہ بنانے والی حالیہ ویزا منسوخیوں کی لہر کو روک دیا جائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی بغیر نوٹس کے ویزا منسوخی مہم اور ملک بدری کو فروغ دینے والی جارحانہ پالیسی نے آزادی رائے کے حقوق اور غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
فلسطین نواز سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن
ٹرمپ انتظامیہ کی ویزا منسوخی مہم کا آغاز مارچ سے ہوا جب انتظامیہ نے امریکی کیمپسی پر فلسطین نواز مظاہروں اور دیگر مسائل پر طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو ان کی رہائش سے گرفتار کیا گیا۔ حال ہی میں، انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ خلیل کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت، ٹرمپ نے خلیل کی گرفتاری کی تعریف کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ محض ایک شروعات ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ:انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر ٹرمپ ہارورڈ پر برہم، اسے "یہود دشمن"،"لبرل گندگی" قراردیا
ٹرمپ کا دعویٰ سچ ثابت ہوا جب خلیل کی گرفتاری کے چند دنوں بعد ہی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک ہندوستانی محقق اور فلسطین نواز طالب علم بدر خان سوری کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے وکیل نے کہا کہ سوری کی گرفتاری ان کی بیوی کی فلسطینی شناخت کی وجہ سے ہوئی۔ اس کے بعد، حکام نے ایک اور فلسطین نواز طالب علم موموڈو تعل کو نشانہ بنایا اور ان سے خود کو حکام کے حوالے کرنے کیلئے کہا۔ ۲۵ مارچ کو ٹفٹس یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی طالبہ رمیسہ اوزترک کو غزہ میں اسرائیل کی تباہی پر تنقید کرنے کی وجہ سے امریکی حکام نے دن دہاڑے اغوا کرلیا۔ گزشتہ ہفتے، حکام نے کولمبیا کے ایک فلسطین نواز کارکن اور طالب علم محسن مہدوی کو ان کے شہریت کے انٹرویو کے دوران گرفتار کیا۔ دیگر طلبہ جیسے لیقا کوردیہ، رنجنی سرینواسن اور علی رضا درودی، یا تو حراست میں ہیں یا خود ملک بدری کا انتخاب کرکے امریکہ چھوڑ چکے ہیں۔