Updated: February 11, 2025, 8:41 PM IST
| Lukhnow
اترپردیش کے ضلع بنجور کے ایک متنازع معاملے میں ایک ہندو نوجوان کے شادی سے قبل اسلام قبول کرنے کے الزام میں قاضی اور نوجوان کی مسلم دوست سمیت ۵؍ افراد کو تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ پرانا دھام پور علاقے میں پیش آنے والے اس واقعہ نے تبدیلی مذہب قانون کے نفاذ پر بحث کا آغازکر دیا۔
جبری تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار صائمہ، اس کے والدین، اور دو قاضی۔ تصویر: ایکس
اترپردیش کے ضلع بنجور کے ایک متنازع معاملے میں ایک ہندو نوجوان کے شادی سے قبل اسلام قبول کرنے کے بعد قاضی اور نوجوان کی مسلم دوست سمیت ۵؍ افراد کو تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔پرانا دھام پور علاقے میں پیش آنے والےاس واقعہ نے تبدیلی مذہب قانون کے نفاذ پر بحث کا آغازکر دیا۔
پولیس کے مطابق، پرانا دھام پور کے رہنے والے جسونت سنگھ نے شکایت درج کروائی تھی، جس نے اپنے بیٹے مکل کی دوست صائمہ اور اس کے خاندان پر اپنے بیٹے کو زبردستی اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا تھا۔ ایس ایس پی دھرم سنگھ مارچل نے بتایا کہ شکایت کنندہ کا بیٹا مکل نئی سرائے محلہ کی ایک مسلم لڑکی صائمہ سے محبت کرتا تھا۔ جب دونوں شادی کرنا چاہتے تھے، صائمہ نے ہندو مذہب قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مکل پر اسلام قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا۔ ایس ایس پی نے مزید بتایا کہ مکل کے والد نے الزام لگایا کہ صائمہ، اس کے والدین شاہد اور رخسانہ اور دو قاضی مولانا ارشاد اور مولانا غفران ،جبری تبدیلی میں ملوث تھے۔ مارچل نے مزید کہا، کہ سنیچر کی رات، وہ مکل کو ایک مدرسہ لے گئے، جہاں اس کا مذہب تبدیل کرانے کے بعد صائمہ سے نکاح کر دیا گیا۔پولیس نے ان تمام کے خلاف غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ ۲۰۲۱ء کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ جس کے تحت ۳؍ سے ۱۰؍ سال قید، اور ۵۰؍ ہزار تک جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔ تمام ملزمین کو اتوار کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
یہ بھی پڑھے: مسلمانوں کیخلاف زہر افشانی میں غیر معمولی اضافہ: امریکی رپورٹ
اس معاملے نے اس متنازع قانون کے اطلاق پر بحث چھڑ دی ہے۔۲۰۲۱ء کے بعد سے یہ قانون بنیادی طور پر مسلمان مردوں کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے، جن پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا، تاہم ہندو مردوں اور مسلم خواتین کے معاملات میں شاذ و نادر ہی اس قسم کی مستعدی دیکھنے کو ملی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک شخص نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں بتایا کہ بہت سی بین المذاہب شادیاں ہیں جن میں لڑکی مسلمان اور لڑکا ہندو ہے، لیکن لڑکی کے گھر والوں کی شکایت کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ایسا لگتا ہے کہ قانون کا اطلاق یکطرفہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اعظم گڑھ: فرضی مدارس کیخلاف کارروائی
اس معاملے میں مسلم معاشرے نے تعصب کا الزام لگاتے ہوئے اس قانون کے نفاذ کے تعلق سے خدشات کا اظہار کیا۔ ایک سرکردہ شخصیت کے مطابق ’’ جب ایک مسلمان لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اسے محبت کہتے ہیں۔ لیکن جب ایک ہندو لڑکی اپنی مرضی سے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرتی ہے، تو اسے مذہب کی تبدیلی کہتے ہیں۔‘‘