اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع کے افیون پیدا کرنے والے کسان ایک غیر متوقع خطرے سے نبرد آزما ہیں۔ بڑے پیمانے پر افیون کی کاشت کیلئے مشہور، ضلع کے کسانوں نے طویل عرصے سے افیون کی منافع بخش تجارت پر انحصار کیا ہے، لیکن افیون کے عادی ہو چکے طوطے اس فصل کیلئے ایک بڑا خطرہ بن گئےہیں۔
افیون کی کھیتی ۔ تصویر: آئی این این
اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں افیون کی کاشت کرنے والے کسان ان دنوں ایک غیر متوقع خطرے سے نبرد آزما ہیں۔ افیون کی کاشت کیلئے مشہور اس علاقے میں اکثر کسان اس فصل پر منحصر ہیں۔لیکن حالیہ موسم میں طوطوں کے جھنڈ افیون کے کھیتوں میں اترتے ہیں، افیون کی پھلیوں سے نکلنے والا نشہ آور رس کو پی جاتے ہیں۔اس وقت وہ انسانی موجودگی سے بے پرواہ اور بھگائے جانے سے بے خوف ہو کر افیون کی نازک اور کچی پھلیوں کو برباد کرتے ہیں۔ ایک مقامی کسان سنگرام سنگھ کہ کہنا ہے کہ ’’ طوطے نیل گائے اور دوسرے کیڑوں سے زیادہ فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ اس نشے کے عادی ہو چکے ہوں۔
یہ بھی پڑھئے: جے این یو میں ایڈوائزری کے باوجود مودی پر ممنوعہ دستاویزی فلم کی اسکریننگ
واضح رہے کہ افیون کے پودے پھلی باندھنے اور رس نکالنے کے مراحل کے دوران خاص طور پر کمزور ہوتے ہیں، مسلسل حملے کی زد میں رہتے ہیں۔ افیون کی ایک پھلی سے ۲۵؍ سے ۳۰؍ گرام رس نکلتا ہے، لیکن طوطے اپنی چونچ سے ایک ہی دن میں اس کا بڑا حصہ چٹ کر جاتے ہیں۔ وہ اس نشے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بار بار کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے انداز سے بھی ان کا نشہ خور ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ان سے حقیقی طور پر فصلوں کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔لیکن کسانوں کی پریشانی کی ایک وجہ اور بھی ہے، حکومت ان کی پیداوار کی نگرانی کرتی ہے۔اور فی لائسنس ۸۰؍ کلو گرام رس کی منظوری ہوتی ہے، اس میں طوطوں سے ہونے والے نقصان کا ذکر نہیں ہے۔جس کے سبب کسانوں کو اپنے کوٹے کا رس تیار کرنے کیلئے جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ممبئی: گیٹ وے آف انڈیا سے ایلیفینٹا جانے والی کشتی غرق آب، ۱۳؍ کی موت
طوطوں کے حملوں کو روکنے کیلئے کسانوں نے مختلف طریقے اپنائے ہیں،جن میں غلیل، پٹاخے،اور شور مچانے والے آلات استعمال کئے جا رہے ہیں۔لیکن یہ عارضی طریقہ کار بھی زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہو رہے ہیں، کیونکہ نشے کے عادی طوطوں پر ان طریقوں کا بہت کم ہی اثر ہوتا ہے۔ جس کے سبب کسان خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ زرعی ماہرین بارہ بنکی کی صورتحال کی جانب متوجہ ہوئے ہیں، وہ ان پرندوں کی نشہ کی لت کا مطالعہ کر رہے ہیں، جس کی اس سے قبل کوئی نظیر نہیں ملتی۔