مسلمانوں کی ایک سرکردہ تنظیم جمیعت علماء ہند نے بدھ کو نینیتال ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 12, 2025, 10:33 PM IST | New Delhi
مسلمانوں کی ایک سرکردہ تنظیم جمیعت علماء ہند نے بدھ کو نینیتال ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کی ایک سرکردہ تنظیم جمیعت علماء ہند نے بدھ کو نینیتال ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی, جس میں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو اتراکھنڈ میں گزشتہ مہینےنافذ کیا گیا تھا۔یو سی سی کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے جو کہ آئین میں درج بنیادی حقوق کے خلاف ہے، جمیعت علماء ہند نے اپنے صدر مولانا ارشد مدنی کے مشورے پر ایک عرضی پیش کی اوراتراکھنڈ کے چیف جسٹس کے سامنے معاملہ کا ذکر کیا۔ اس معاملےکی سماعت اس ہفتے کے آخر میں متوقع ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل جمیعت علماء ہند کی جانب سے عدالت میں اس اہم معاملے کی نمائندگی کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ: کیا ہم انتخاب جیتنے کیلئے طفیلی طبقہ تو نہیں تشکیل دے رہے؟
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ’’ انہوں نے ملک کے آئین، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کیلئے انصاف ملنے کی امید کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدالتیں ان کا آخری سہارا بنی ہوئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہم کسی ایسے قانون کو قبول نہیں کریں گے جو شریعت کے خلاف ہو۔ مسلمان بہت سی چیزوں پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن اپنی شریعت اور مذہب پر کبھی نہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے وجود کا نہیں ہے بلکہ ان کے آئینی حقوق کا بھی معاملہ ہے۔ حکومت یو سی سی کے ذریعے مسلمانوں کو دیئے گئے آئینی حقوق چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
انہوں نے دلیل دی کہ’’ یو سی سی کا نفاذ آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ مسئلہ صرف مسلم پرسنل لاء کا نہیں ہے، بلکہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو بچانے کا ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، یعنی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے،اور لوگ کسی بھی عقیدے کی پیروی کرنےکیلئےآزاد ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن نے مدنی مسجد کیخلاف کارروائی کو تاناشاہی قراردیا
مولانا ارشد مدنی نے سوال کیا کہ’’ مسلم عقیدے کے مطابق ہمارے عائلی قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں۔ ان لوگوں کیلئے جو کسی بھی مذہبی پرسنل قوانین کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، ملک میں پہلے سے ہی ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے۔ تو یونیفارم سول کوڈ کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ مدنی نے یہ بھی کہا کہ یو سی سی ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۴۴؍کا یو سی سی کی بنیاد کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے، یہ صرف ایک ہدایتی اصول ہے نہ کہ کوئی پابند شق۔ دریں اثنا، آرٹیکل۲۵؍،۲۶؍،۲۹؍، جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں، کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ شریعت ایپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ءمسلم پرسنل لاء کو بھی تحفظ دیتا ہے۔
مولانا نے زور دے کر کہا کہ ’’ حکومت کا اصرار ہے کہ ایک ملک میں ایک قانون ہونا چاہیے،جبکہ ہندوستان میں پہلے سے ہی آئی پی سی، سی آر پی سی، اور یہاں تک کہ ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ کے قوانین میں فرق ہے۔ یہ خیال کہ ایک نظام کے تحت دو قانون نہیں ہو سکتے ناقص دلیل ہے۔‘‘