یو ایس ایڈ اسٹاف کو ۱۵؍ منٹ میں اپنا سامان لے کر دفتر سے نکل جانے کا نوٹس دیا گیا۔ اشکبار آنکھوں سے ملازمین نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ اس موقع پر ملازمین نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
EPAPER
Updated: February 28, 2025, 9:26 PM IST | Washington
یو ایس ایڈ اسٹاف کو ۱۵؍ منٹ میں اپنا سامان لے کر دفتر سے نکل جانے کا نوٹس دیا گیا۔ اشکبار آنکھوں سے ملازمین نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ اس موقع پر ملازمین نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
بارش ہو رہی تھی اور آسمان ناشاد تھا۔ وہ (آسمان ) واشنگٹن، ڈی سی کے اوپر جھک رہا تھا جیسے رونالڈ ریگن بلڈنگ کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، اس کا وزن اسے برداشت کرنا بہت مشکل ہو۔ ایک ایک کر کے لوگ باہر نکلے — کچھ سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے، کچھ کارڈ بورڈ کے ڈبے تھامے ہوئےاور کچھ کے ہاتھ میں صرف ایک گروسری بیگ تھا جس میں ان کے طویل کریئر کا باقی بچا ہوا سامان تھا جو انہوں نے یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (یو ایس ایڈ) میں گزارا تھا۔
ڈیوڈ کلین جنہوں نے یو ایس ایڈ کے ساتھ دس سال سے زیادہ کا وقت گزارا تھا، ایک لمحے کیلئے دروازے پر کھڑے ہوئے اورموسم کو دیکھا، پھربارش میں بھیگتے ہوئے باہر نکل گئے۔ پندرہ منٹ میں اپنے زندگی بھر کا کام پیک کر لیا۔ انہوں نے اپنے بیگ کو ایڈجسٹ کیا جو ان کے نزدیک سب سے اہم تھا۔
صرف چند ہفتے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی امداد کا ایک جارحانہ نوٹس لیا تھا اور یہ طے کیا تھا کہ۹۰؍فیصد سے زیادہ یو ایس ایڈ کی فنڈڈ منصوبے’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے ایجنڈے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ راتوں رات ایچ آئی وی، خواتین کی اموات اور غذائی قلت سے نمٹنے والے منصوبے فنڈنگ سے محروم ہو گئے تھے۔ امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کرنے سے انکار کردیا اور اب ایجنسی کو ختم کیا جا رہا تھا، اس کے ملازمین کو نکالا جا رہا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے اب یورپ پر ۲۵؍فیصد ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی
`مدد خیرات نہیں ہے
پنسلوانیا ایوینیو پر مظاہرین کی ایک قطار بن گئی تھی، کچھ نے بینر پکڑے ہوئے تھے، ملازمین کے باہر آنے پر کچھ بس ہلکے سے تالیاں بجا رہے تھے۔ ایک بینر پر لکھا تھا:’’آپ کی اہمیت تھی۔ ‘‘
ایک خاتون جو سرخ رنگ کی جیکٹ میں ملبوس تھی اور جو پناہ گزینوں کی مددکیلئے پروگرام ڈائریکٹر رہ چکی تھیں، رک گئیں اور کہنے لگیں ’’یہ محسوس نہیں ہوتا جیسے ہم نے کچھ کیا ہو۔ ‘‘ان کی آواز میں افسردگی اور تھکاوٹ تھی۔ قریبی مقام پر سیکوریٹی گارڈز جوڑے کی صورت میں کھڑے تھے اور باہر آنے والوں کو دیکھ رہے تھے۔ یو ایس ایڈ کے ملازمین کو اپنے سامان کو جمع کرنےکیلئے مخصوص وقت دیا گیا تھا۔ کچھ نے اپنے دفاتر پر نوٹس چھوڑے تھے، اپنے ساتھیوں کو الوداعی پیغامات، جنہیں شاید کبھی الوداع کہنے کا موقع نہ ملے۔ کچھ نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا، اور چلے گئے۔
مائیکل ایف جو متعدی بیماریوں کی روک تھام پر کام کر چکے تھے، نے کہا کہ مدد خیرات نہیں ہے۔ یہ روک تھام ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی قید سے۶۴۲؍فلسطینی رہا، غزہ میں والہانہ استقبال
`اب میں کسی سے کیا کہوں ؟
یو ایس ایڈ، جو ۱۹۶۱ءمیں قائم ہوا تھا، نے سرد جنگ، بجٹ کٹوتیوں اور بدلتے ہوئے سیاسی منظرناموں کا مقابلہ کیا۔ حتیٰ کہ ان انتظامیہ کے تحت بھی جو غیر ملکی امداد کو مشکوک سمجھتی تھیں، ایجنسی قائم رہی۔ مگر اب یہ ختم ہو رہی تھی۔ عمارت کے باہر، کچھ سابق ملازمین کھڑے تھے اور منظر دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک ملازم نے کہ یہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یو س ای ایڈ نے پہلے بھی عارضی بندشیں دیکھی تھیں، مگر کبھی ایسا خاتمہ نہیں دیکھا تھا۔ جب ایک خاتون اپنے ایک ٹیم کی فریم شدہ تصویر اٹھائے ہوئےباہر آئیں تو سڑک کے پار ہجوم نے پھر سے تالیاں بجائیں۔ جسمین اوکافور، جو ایک افریقی غذائی تحفظ کے منصوبے کی نگرانی کر چکی تھیں، ہجوم کے قریب رکیں اور بارش میں نم آنکھوں کے ساتھ کہنے لگیں ’’میں کمیونٹیز اور ان کی قیادت سے کہا کرتی تھی کہ امریکہ ان کے ساتھ ہے، اب میں کسی سے کیا کہوں ؟‘‘