زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کی حکمت عملی، یوکرین میں جنگ کو طول دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر طے شدہ معاہدے ناکام ہوئے تو ماسکو پر مزید پابندیاں لگانی چاہئے اور اس پر دباؤ کو بڑھایا جانا چاہئے۔
EPAPER
Updated: March 26, 2025, 10:09 PM IST | Kyiv / Moscow / Washington
زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کی حکمت عملی، یوکرین میں جنگ کو طول دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر طے شدہ معاہدے ناکام ہوئے تو ماسکو پر مزید پابندیاں لگانی چاہئے اور اس پر دباؤ کو بڑھایا جانا چاہئے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس پر الزام لگایا کہ ماسکو، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کے دوران طے پانے والے جنگ بندی معاہدے میں چالاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ زیلنسکی نے منگل کی شب ایک ویڈیو خطاب میں کہا: "بدقسمتی سے، مذاکرات کے دن ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روسی، پہلے ہی چالاکی سے معاہدے کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں۔ وہ معاہدے کو مسخ کر کے ہمارے ثالثوں اور پوری دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیانات بالکل واضح ہیں، ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ وہاں کیا لکھا ہے۔ لیکن کریملن ایک بار پھر جھوٹ بول رہا ہے کہ بحیرہ اسود میں جنگ بندی کا آغاز روس پر عائد پابندیوں کے خاتمے سے مشروط ہے اور توانائی انفراسٹرکچر پر حملے روکنے کی تاریخ ۱۸ مارچ مقرر کی گئی ہے۔ ماسکو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے، اب یہ دنیا پر منحصر ہے کہ وہ اس جھوٹ کو مزید قبول کرے یا نہیں۔" زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کی یہ حکمت عملی، یوکرین میں جنگ کو طول دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر طے شدہ معاہدے ناکام ہوئے تو ماسکو پر مزید پابندیاں لگانی چاہئے اور دباؤ کو بڑھایا جانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: جاپان زخمی فلسطینیوں کا علاج کرے گا، تعلیمی میدان میں طلبہ کی مدد کرے گا
روس کا زاپوریزہیا جوہری پلانٹ پر کنٹرول برقرار رکھنے کا اعلان
دوسری طرف، روسی وزارت خارجہ نے زاپوریزہیا جوہری پلانٹ کو یوکرین یا کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا: "یہ ایک روسی جوہری تنصیب ہے اور اس کا کنٹرول یوکرین یا کسی اور ملک کے حوالے کرنا "ناممکن" ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جوہری پلانٹ کے تمام ملازمین روسی شہری ہیں اور ان کی جانوں سے کھیلا نہیں جا سکتا، خاص طور پر "اُن مظالم کو مدنظر رکھتے ہوئے جو یوکرینیوں نے ہمارے ملک کے علاقوں میں کئے اور اب بھی کر رہے ہیں۔" وزارت خارجہ نے بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مشترکہ آپریشن کے امکان کو بھی مسترد کر دیا اور اسے عالمی سطح پر "غیر مسبوق" قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کے بعد اقوام متحدہ کا موجودگی محدود کرنے کا فیصلہ
`اعتماد کرو، مگر تصدیق بھی کرو`
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بحیرہ اسود میں ہونے والے معاہدے کو "روس کو زرعی اجناس اور کھاد کی منڈی میں واپسی کا موقع دینے اور عالمی خوراکی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش" قرار دیا۔ انہوں نے روسی سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: "ہم چاہتے ہیں کہ زرعی اجناس اور کھاد کا بازار مستحکم ہو تاکہ کوئی ہمیں اس سے باہر نہ کر سکے۔ ایسا صرف اس لئے نہیں کہ ہمیں منصفانہ مسابقت میں جائز منافع چاہئے، بلکہ اس لئے بھی کہ ہم افریقی ممالک اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کے متعلق فکرمند ہیں۔"
لاوروف نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی خواہش کی ستائش کی لیکن ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اعتماد کرو، مگر تصدیق بھی کرو۔ یہ ایک عظیم اصول ہے اور ہم اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔"
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: جج نے فلسطین حامی کوریائی طالبہ کی جلا وطنی پرعارضی روک لگائی
روس اور امریکہ کے درمیان معاہدہ
قبل ازیں، وائٹ ہاؤس نے منگل کو بتایا کہ امریکہ، روس اور یوکرین نے بحیرہ اسود میں محفوظ نقل و حرکت، طاقت کے استعمال کی روک تھام اور تجارتی جہازوں کو عسکری مقاصد کیلئے استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے زرعی اور کھاد کی برآمدات کی عالمی منڈیوں تک روس کی رسائی کی بحالی میں مدد کرنے کا بھی اعلان کیا۔ واشنگٹن اور ماسکو نے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے روکنے کیلئے اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ ماسکو نے ان معاہدوں کی تصدیق کی لیکن واضح کیا کہ ان پر عمل درآمد اسی وقت ہوگا جب روس پر عائد کچھ پابندیاں اور اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔