معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانی ’’لارڈ اوکھرسٹس کرس‘‘ Lord Oakhurst`s Curseکا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: August 23, 2024, 5:36 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانی ’’لارڈ اوکھرسٹس کرس‘‘ Lord Oakhurst`s Curseکا اُردو ترجمہ۔
لارڈ اوکھرسٹ شہر کے سب سے شاندار اور عالیشان کہے جانے والے ’’اوکھرسٹ محل‘‘ کے مشرقی حصے میں بلوط کی لکڑیوں سے بنے کمرے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ کچھ عرصہ قبل تشخیص ہوئی تھی کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد کچھ ماہ ٹھیک سے گزرے مگر پھر اس کی صحت دن بہ دن گرنے لگی، اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ کمزور ہوتا چلاگیا۔
گرمیوں کی شام تھی۔ کھڑکیوں سے بنفشی شعاعیں کمرے میں داخل ہورہی تھیں۔ سورج اپنی کرنیں سمیٹ رہا تھا مگر لارڈ اوکھرسٹ بے بسی کے عالم میں بستر پر پڑا تھا۔ اسے سمندر کی لہروں میں کھیلتے ہوئے ڈوبتے سورج کو دیکھنا پسند تھا مگر اب بے شمار دولت ہونے کے باوجود وہ ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی دولت اس کے کس کام کی، جن سے وہ زندگی کی چند سانسیں نہیں خرید سکتا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی سے متصل شاندار باغ میں موسم گرما کے رنگ برنگے پھول خوشیاں بکھیرنے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان کی خوشبو بہتی ہواؤں کے ساتھ لارڈ اوکھرسٹ کے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ مرتا ہوا شخص سوچ رہا تھا کہ اس نے زندگی میں اس قدر اچھی خوشبو کبھی نہیں سونگھی تھی۔ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ زندگی میں جون کی کسی شام نے شعاعوں کا اتنا حسین منظر نہیں پیش کیا تھا۔
اس کی جوان بیوی جس سے اسے بڑی محبت تھی، غم کی مورت بنی محل میں کسی بدروح کی طرح دن رات گھومتی رہتی تھی۔ وہ اکثر لارڈ کے پاس آکر بیٹھ جاتی اور خوب آنسو بہاتی۔ لارڈ کی بیماری نے اسے پریشان کر رکھا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح اس کا شوہر صحت یاب ہوجائے۔ وہ لارڈ کے کمرے کے آس پاس ہی چکراتی رہتی تھی اور دن میں سیکڑوں دفعہ اس کا تکیہ درست کرتی تھی۔ اکثر وہ دھیمے اور سوگوار لہجے میں اس سے پوچھتی تھی کہ وہ اس کیلئے کیا کرسکتی ہے؟ وہ اسے تسلی دینے کیلئے کون سے الفاظ بول سکتی ہے؟ دن میں کئی دفعہ وہ دبی ہوئی سسکیاں لیتی اور اپنے ایپرن کی جیب میں موجود پڑے ڈھیروں کیریمل چاکلیٹ میں سے ایک نکال کر کھاتی رہتی تھی۔ محل میں درجنوں نوکر تھے مگر وہ خاموش اور دبے ہوئے قدموں کے ساتھ پورا دن محل میں اِدھر اُدھر اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ ان کی قدموں کی چاپ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ اس محل میں موت کا فرشتہ کبھی بھی داخل ہوسکتا ہے اور ان کے لارڈ کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے۔ محل اس قدر خاموشی میں ڈوبا ہوتا کہ اگر ایک کانچ کا گلاس بھی ٹوٹ جائے تو گونج دور تک سنائی دیتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: پنجرہ
لارڈ اوکھرسٹ گزرے ہوئے دنوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس نے اس معصوم اور دلکش لڑکی سے شادی کی تھی۔ وہ عمر میں اس سے کئی سال چھوٹی تھی مگر اس نے لارڈ سے شادی کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ کتنی واضح اور باریک بینی سے ماضی کے مناظر اس کے ذہن میں ابھررہے تھے۔
وہ ایک بار پھر اپنے محل کے پرانے شاہ بلوط کے باغ میں کھڑا اس معصوم لڑکی کا انتظار کررہا تھا۔ ستاروں بھرے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکر اسے انتظار کرنا گراں نہیں گزر رہا تھا۔ وہ ایک امیر شخص تھا۔ لوگ اس سے ملنے کیلئے گھنٹوں انتظار کرتے تھے مگر وہ ایک عام لڑکی کا انتظار کررہا تھا۔ ماہ جون میں کھلنے والے گلابوں کی نایاب خوشبو اور رات کے کھانے کی مہک، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اس کے ذہن کو معطر کر رہی تھی۔ تبھی وہ اپنی معصوم شکل لئے وہاں آئی تھی اور لارڈ نے اس سے اظہار محبت کیا تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ لڑکی نے شرم و حیا کے ساتھ پہلے تو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا، اور پھر کہا تھا کہ ’’ہنری! میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘ آج سے پہلے کسی لفظ نے لارڈ کو اس قدر خوشی نہیں دی تھی۔ یہ سننے کے بعد وہ اتنا خوش ہوا تھا کہ اس نے تین دن تک محل میں دوستوں کی دعوت کی تھی۔
مگر اب وہ مر رہا تھا۔ چند ہی گھنٹوں میں اس کی روح، جسم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہونے والی تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ روح اس عالیشان محل سے نکل کر ایک اندھیری اور خوفناک دنیا میں چلی جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کا مسافر
ایک گاڑی تیزی سے محل کی طرف بڑھی اور شاندار دروازے پر رُک گئی۔ لندن کے مشہور طبیب سر ایور ہارڈ فٹز آرمنڈ، جن کیلئے ٹیلی گراف بھیجا گیا تھا، نیچے اترے اور تیزی سے ماربل کی سیڑھیوں پر چڑھ گئے۔ لیڈی اوکھرسٹ دروازے پر ڈاکٹر سے ملیں۔ اس کا پیارا چہرہ پریشانی اور غم کا اظہار کر رہا تھا۔
’’اوہ، سر ایور ہارڈ! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ اتنے کم وقت میں اتنی جلدی آگئے۔ میرے خیال میں وہ (لارڈ اوکھرسٹ) موت کی دنیا کے بہت قریب ہوتے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے ابھی ان کی روح نکل جائے گی۔ مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے۔ آپ کے آنے پر تھوڑی تسلی ہوئی ہے۔ اچھا، کیا آپ اپنے ساتھ وہ ’’ملائی والے بادام‘‘ لائے ہیں جن کا میں نے ٹیلی گرام میں ذکر کیا تھا؟‘‘
سر ایور ہارڈ نے کوئی جواب دیئے بغیر ایک پیکٹ لیڈی کی طرف بڑھا دیا اور اپنے منہ میں لونگ کے دو ٹکڑے ڈالتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگے جو انہیں لارڈ اوکھرسٹ کے کمرے تک لے آئیں۔ چند لمحوں بعد ڈاکٹر کے پیچھے ہی لیڈی اوکھرسٹ بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔
سر ایور ہارڈ اپنے مریض کے پلنگ کے قریب پہنچے اور اس بیمار شخص کی نبض پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ عجیب احساس کا ایک سایہ ان کے پیشہ ورانہ چہرے سے گزرا، اور پھر انہوں نے سنجیدگی سے کہا، ’’مادام! آپ کے شوہر اب نہیں رہے۔‘‘
لیڈی اوکھرسٹ کو پہلے تو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ڈاکٹر کہنا کیا چاہتا ہے لیکن چند لمحوں بعد جب اسے مفہوم سمجھ میں آیا تو ملائی والے باداموں کا پیکٹ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور وہ تیزی سے اُس کلہاڑی کی طرف بڑھی جو اس کا شوہر نوکروں کو دھمکانے کیلئے پلنگ کے سرہانے رکھتا تھا۔ کلہاڑی اٹھائی اور لارڈ کی تجوری کا تالہ ایک ہی جھٹکے میں توڑدیا، پھر بے تابی سے اس میں رکھی دستاویزات کو کھینچ کر باہر نکالا۔ اس عمل میں درجن بھر کاغذات زمین پر بکھر گئے۔ لیکن لیڈی اوکھرسٹ کو کسی خاص کاغذ کی تلاش تھی۔ وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتی رہی، پھر مطلوبہ کاغذ مل گیا تو اسے چند منٹوں تک دیکھتی رہی۔ اچانک لیڈی اوکھرسٹ کے گلے سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
ڈاکٹر سر ایور ہارڈ فٹزآرمنڈ تیزی سے آگے بڑھے اور کاغذ اٹھالیا اور اسے چند لمحوں تک پڑھتے رہے۔ یہ لارڈ اوکھرسٹ کی وصیت تھی جنہوں نے اپنی تمام دولت و جائیداد ایک سائنسی ادارے کو دے دی تھی۔
کاغذ فرش پر پھینک کر ڈاکٹر سر ایور ہارڈ نے کمرے میں چاروں طرف تیز نظریں دوڑائیں۔ وہاں مرے ہوئے لارڈ اور بے ہوش بیوی کے علاوہ کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے تیزی سے کچھ قیمتی زیورات اور سونے اور چاندی کے نایاب نمونے مرکزی ٹیبل سے اپنی جیبوں میں منتقل کئے اور نوکروں کو بلانے کیلئے لارڈ کے بستر کے پاس پڑی گھنٹی بجائی۔
یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: وقت اور جگہ
جیسے ہی نوکر کمرے میں آئے ڈاکٹر سر ایور ہارڈ سیڑھیوں سے اتر کر باہر کی طرف بھاگے۔
کالج کے زمانے میں وہ اسپورٹس ٹیم کا حصہ تھے اس لئے تیزی سے دوڑ سکتے تھے۔ ان کا مقصد محل کے آہنی گیٹ کو پار کرکے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہونا تھا۔ جب وہ تقریباً دوڑتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف جارہے تھے تو انہیں لگا کسی نے ان کے پاؤں کو نوکیلے دانتوں میں جکڑ لیا ہو۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں گھاس پر گرگئے۔ وہ لارڈ اوکھرسٹ کا پالتو کتا تھا۔ خونخوار اور نوکیلے دانتوں والا کتا، جس کے دانت ڈاکٹر کی دائیں پنڈلی میں دھنسے جارہے تھے۔ ڈاکٹر نے اپنے آپ کو اس سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ان کی پتلون پھٹ گئی تھی۔
ڈاکٹر کو اندازہ نہیں تھا کہ لارڈ اوکھرسٹ نے ایک خونخوار کتا بھی پال رکھا ہے جس نے سونگھ لیا تھا کہ ڈاکٹر کی جیبوں میں لارڈ کی کچھ چیزیں ہیں۔ اس نے تب تک ڈاکٹر کی پنڈلی نہیں چھوڑی جب تک ڈاکٹر نے چوری کی ہوئی ہر شے گھاس پر نہ پھینک دی۔ کتے نے جیسے ہی پنڈلی چھوڑی وہ تیزی سے اپنی کار کی طرف بھاگے ۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ یقیناً لارڈ اوکھرسٹ کی روح نے مجھے بددعا دی ہے اور یہ کتا میرے پیچھے پڑگیا ہے۔
اب اندازہ لگایئے کہ خونخوار کتے نے معصوم اور دلکش بیوی کا کیا حشر کیا ہوگا؟