• Wed, 04 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: پنجرہ

Updated: August 16, 2024, 5:30 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف کولمبیائی ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز کی شہرہ آفاق کہانی ’’بلتھراز ونڈرفُل آفٹر نون ‘‘ Balthazar`s Wonderful Afternoonکا اُردو ترجمہ۔

Balthazar`s Wonderful Afternoon. Photo: INN
’بلتھراز ونڈرفُل آفٹر نون۔ تصویر : آئی این این

پنجرہ تیار ہوچکا تھا۔ ’’بالتھوزا‘‘ عادت کے مطابق اسے چھت سے لٹکا کر کھانا کھانے کیلئے چل پڑا۔ جب تک وہ واپس آیا، گھر کے باہر پنجرہ دیکھنے والوں کی بھیڑ اکٹھا ہوچکی تھی۔ ہر فرد یہی کہہ رہا تھا کہ اتنا شاندار اور خوبصورت پنجرہ غالباً دنیا میں کبھی نہیں بنایا گیا۔ بھیڑ  ہٹانے کی غرض سے بالتھوزا کو پنجرہ اتار کر دکان بند کرنی پڑی۔’’تمہیں اب شیو کرلینا چاہئے۔‘‘ بالتھوزا کی بیوی اُرسُولا نے کہا، ’’تم بالکل پادری لگ رہے ہو۔‘‘
 ’’دوپہر کے کھانے کے بعد شیو کرنا برا خیال کیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے آفتیں گلے پڑ جاتی ہیں۔ یہ بدقسمتی کی علامت ہے۔‘‘ بالتھوزا نے کہا۔
 اس نے دو ہفتوں سے شیو نہیں کی تھی۔ اس کے چہرے کے بال خچر کے بال کی طرح چھوٹے اورسخت ہوگئے تھے۔ وہ تیس سال کا مضبوط جسم والا مرد تھا۔ ارسولا اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اسے بچپن ہی سے پنجرے بنانے کا شوق تھا۔ اس کام میں وہ اتنا ماہر تھا کہ کوئی بھی اسے شکست نہیں دے سکتا تھا۔
 ’’پھر تھوڑی دیر آرام کرلو،‘‘ ارسولا نے کہا۔ ’’اتنی بڑی ڈاڑھی کے ساتھ باہر جانا مناسب نہیں ہوگا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کا مسافر

 وہ آرام کی غرض سے لیٹ گیا لیکن پڑوسی اسے آرام کرنے ہی نہیں دے رہے تھے۔ اسے انہیں پنجرہ دکھانے کیلئے بار بار اٹھ کر باہر جانا پڑ رہا تھا۔ ارسولا نے اب تک پنجرہ نہیں دیکھا تھا البتہ وہ بالتھوزا سے ناراض تھی کیونکہ پنجرہ بنانے کی چکر میں وہ کئی دنوں سے دکان نہیں گیا تھا۔ بالتھوزا پیشے سے بڑھئی تھا۔ وہ دو ہفتوں سے ٹھیک طرح سے سونہیں پارہا تھا، رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا تھا، نیند میں بڑبڑاتا رہتا اور اس کے پاس شیو کرنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ ارسولا کو لگتا تھا کہ وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ لیکن پنجرہ مکمل ہوتے ہی اس کی جھنجھلاہٹ ختم ہوگئی۔ جب بالتھوزا جھپکی سے بیدار ہوا تو اس وقت ارسولا اس کی پتلون اور شرٹ استری کرچکی تھی۔ اس نے بالتھوزا کے کپڑے وہاں لٹکا دیئے جہاں پنجرہ لٹکا ہوا تھا، اور پنجرے کو لئے کھانے کی میز پر آگئی۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
 ’’تم یہ پنجرہ کتنے میں بیچوگے؟‘‘ ارسولا نے سوال کیا۔’’میں نہیں جانتا،‘‘ بالتھوزا نے جواب دیا۔ ’’مَیں اگر تیس پیسو (کولمبیائی کرنسی) کا مطالبہ کروں تو شاید وہ مجھے بیس دے دیں۔‘‘ ’’پچاس میں بیچو‘‘ ارسولا نے کہا۔ ’’تم نے ان دو ہفتوں میں اپنی نیند تک قربان کردی ہے۔یہ پنجرہ کافی بڑا ہے۔ میرے خیال میں یہ اب تک کا سب سے بڑا پنجرہ ہے۔‘‘
 بالتھوزا شیو کرنے لگا۔ ’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ مجھے پچاس پیسو دیں گے؟‘‘ 
 ’’مونٹیل کیلئے یہ معمولی رقم ہے، اور پنجرہ پچاس ہی کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘ارسولا نے کہا۔ ’’تم ساٹھ مانگو۔‘‘
 گھر میں اداسی چھائی ہوئی تھی۔ اپریل کا پہلا ہفتہ تھا۔ جھینگروں کی آواز سے گرمی قابل برداشت لگ رہی تھی۔ بالتھوزا نے لباس تبدیل کیا اور گھر کو ٹھنڈا کرنے کیلئے آنگن کا دروازہ کھول دیا، اور تبھی بچوں کا ایک گروہ کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔
 اس خوبصورت پنجرےکی خبر دور دور تک پھیل چکی تھی۔ ڈاکٹر اوکٹاویو گرالڈو ایک بوڑھا طبیب تھا جو اپنی زندگی میں مطمئن مگر پیشے سے تھک چکا تھا۔ جب وہ اپنی بیمار بیوی کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا تو بالتھوزا کے پنجرے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ آنگن میں دستر خوان بچھاتے تھے جہاں پھولوں کے درجنوں گملے تھے اور ساتھ ہی دو پنجرے بھی تھے جن میں رنگ برنگی کینریاں (ایک قسم کی چڑیا) تھیں۔ اس کی بیوی کو پرندے پسند تھے۔ پنجرے کے متعلق سوچتے ہوئے ڈاکٹر گرالڈو اسی دوپہر کو ایک مریض کو دیکھنے گیا، اور جب واپس آیا تو پنجرے کا معائنہ کرنے بالتھوزا کے گھر گیا۔
 بالتھوزا کے ہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔ میز پر پنجرہ رکھا ہوا تھا جس پر تاروں کا بڑا گنبد اور اندر تین منزلے بنے ہوئے تھے۔ اس میں خاص طور پر کھانے اور سونے کیلئے گزرگاہیں بنائی گئی تھیں، پرندوں کی تفریح کیلئے جھولے بھی لگائے گئے تھے۔ ڈاکٹر اسے چھوئے بغیر اس کا بغور معائنہ کرتا رہا۔ اس نے اپنی بیوی کیلئے ایک خوبصورت پنجرے کا تصور کیا تھا، اور یہ پنجرہ اس کی امیدوں پر پورا اترتا دکھائی دے رہا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: ڈریکولا کا مہمان

’’یہ پریوں کی کہانی جیسا معلوم ہورہا ہے،‘‘ ڈاکٹر نے کہا، پھر بچوں کی بھیڑ میں بالتھوزا کو تلاش کرنے لگا۔ پھر اسے بالتھوزا نظر آیا تو اس نے شفقت بھرے لہجے میں کہا، ’’تم ایک غیر معمولی کاریگر ہو۔‘‘
 بالتھوزا نے شرماتے ہوئے، ’’شکریہ!‘‘ کہا۔
 ’’یہ حقیقت ہے،‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’تمہیں اس میں پرندے ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ اس نے پنجرے کو سامعین کی آنکھوں کے سامنے گھماتے ہوئے یوں کہا جیسےاس کی نیلامی کر رہا ہو، ’’اسے درختوں سے لٹکا دینا ہی کافی ہوگا، پرندہ چہچہاتے ہوئے خود اس میں چلے آئیں گے۔‘‘  اس نے اسے دوبارہ میز پر رکھا، ایک لمحے کیلئے کچھ سوچا، اور پھر پنجرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’ٹھیک ہے، مَیں اسے خریدوں گا۔‘‘ 
 ’’یہ فروخت ہوچکا ہے،‘‘ ارسولا نے کہا۔
 ’’یہ مسٹر مونٹیل کے بیٹے کا ہے،‘‘ بالتھوزا نے کہا، ’’اس نے خصوصی طور پر آرڈر دے کر بنوایا ہے۔‘‘ 
 ڈاکٹر نے لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہا، ’’کیا اس نے تمہیں ڈیزائن دیا تھا؟‘‘’’نہیں،‘‘ بالتھوزا نے کہا، ’’اس نے صرف کہا تھا کہ اسے ’’ٹروپیئل‘‘ (ایک امریکی پرندہ جس کے پر زرد اور سیاہ ہوتے ہیں) کے جوڑے کیلئے ایک بڑا پنجرہ چاہئے۔‘‘ ڈاکٹر نے پنجرے کی طرف دیکھا۔ ’’لیکن یہ ٹروپیئل کیلئے نہیں ہے۔‘‘
 ’’بلاشبہ یہ ہے، ڈاکٹر،‘‘ بالتھوزا نے میز کے قریب آتے ہوئے کہا۔ بچوں نے اسے گھیر لیا تھا۔ اس نے اپنی شہادت کی انگلی سے مختلف کمپارٹمنٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’مَیں نے پیمائش کا خاص خیال رکھا ہے۔‘‘ اور پھر اس نے گنبد کو اپنی انگلیوں سے ہلکے سے چھوا، اور پنجرے میں مختلف قسم کے راگ گونجنے لگے۔ ’’یہ سب سے مضبوط تار ہے جسے انتہائی باریکی سے ایک دوسرے سے جوڑا جاتا ہے۔‘‘ بالتھوزا نے کہا۔ ’’اس میں ایک طوطا بآسانی سما سکتا ہے۔‘‘ بچوں میں سے ایک نے مداخلت کی۔
 ’’بالکل صحیح کہا تم نے۔‘‘ بالتھوزا نے کہا۔
 ڈاکٹر نے سر جھکا لیا۔ ’’ٹھیک ہے، مگر اس نے آپ کو کوئی ڈیزائن نہیں دیا تھا۔ صرف یہ کہا تھا کہ ٹروپیئل کیلئے ایک پنجرہ بنانا ہے، ہے نا؟‘‘ 
 ’’بالکل!‘‘ بالتھوزا نے کہا۔
 ’’پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ وہی پنجرہ ہے جسے بنانے کیلئے مونٹیل نے تم سے کہا تھا۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
 ’’یہ وہی ہے،‘‘ بالتھوزا الجھ گیا تھا۔ 
 ڈاکٹر نے جلدی سے کہا، ’’تم ایک اور پنجرہ بنا سکتے ہو۔ مَیں نے بیوی سے اس پنجرے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ 
 ’’میں معذرت خواہ ہوں، ڈاکٹر،‘‘ بالتھوزا نے کہا، ’’لیکن میں آپ کو وہ فروخت نہیں کرسکتا جو پہلے ہی بیچ چکا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے کندھے اچکائے۔ اپنی گردن پر آئے پسینے کو رومال سے خشک کرتے ہوئے پنجرے کو بغور دیکھا۔ ’’انہوں نے تمہیں کتنے پیسے دیئے ہیں؟‘‘ 
 بالتھوزا نے جواب دیئے بغیر ارسولا کی طرف دیکھا۔ ’’ساٹھ پیسو،‘‘ اس نے کہا۔ ڈاکٹر پنجرے کو دیکھتا رہا۔ ’’یہ بہت خوبصورت ہے،‘‘ اس نے آہ بھری۔ ’’انتہائی خوبصورت۔‘‘ پھر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگا، ’’مونٹیل بہت امیر ہے۔‘‘
  سچ یہ تھا کہ مونٹیل اتنا امیر نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا، لیکن وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔ چند میٹر کے فاصلے پر مونٹیل، بالتھوزا کے شاندار پنجرےسے لاتعلق اپنے عالیشان وِلا میں آرام کررہا تھا۔ مونٹیل کی بیوی کمرے میں اندھیرا کئے لیٹی تھی جبکہ مونٹیل قیلولہ کے بعد غسل کررہا تھا۔ تبھی مونٹیل کی بیوی کو بچوں کا شور سنائی دیا۔ اس نے دروازہ کھولا تو پرجوش ہجوم کے درمیان بالتھوزا پنجرہ لئے آتا دکھائی دیا۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھا۔ اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ اس کے رنگ ڈھنگ میں وہی وقار اور سادگی تھی جیسی کسی غریب کی امیروں کے گھر آمد پر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:ایک طبع زاد کہانی: عظیم تباہی

 ’’مَیں نے اپنی زندگی میں اتنا شاندار پنجرہ کبھی نہیں دیکھا،‘‘ مونٹیل کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا، پھر ہجوم کی طرف دیکھ کر غصے سے کہنے لگی، ’’ تم پنجرہ اندر لے جاؤ ورنہ یہاں بھیڑ اکٹھا ہوجائے گی۔‘‘
 بالتھوزا کئی مرتبہ مونٹیل کے گھر آچکا تھا مگر اسے امیروں کے گھر میں کبھی سکون نظر نہیں آیا تھا۔ میاں بیوی ہر وقت جھگڑتے رہتے تھے۔اسے امیروں کے گھر میں الجھن ہوتی تھی۔’’کیا ’پیپے‘ گھر پر ہے؟‘‘ اس نے پنجرہ میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
 ’’وہ اسکول گیا ہے۔ بس آتا ہی ہوگا۔ مونٹیل غسل کررہا ہے۔‘‘ مونٹیل کی بیوی نے طویل جواب دیا۔ 
 شوروغل سنائی دیا تو مونٹیل غسل ادھورا چھوڑ کر ہی باہر آگیا، ’’ایڈیلیڈ،‘‘ وہ چلایا۔ ’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘
 ’’جلدی آؤ، دیکھو۔‘‘ بیوی نے بلند آواز سے کہا۔ 
 مونٹیل، تولیہ گلے میں ڈالے نمودار ہوا۔
 ’’یہ کیا ہے؟‘‘ ’’پیپے کا پنجرہ،‘‘ بالتھوزا نے کہا۔
 ’’کس کا؟‘‘ مونٹیل نے پوچھا۔’’پیپے کا،‘‘ بالتھوز نے جواب دیا، اور پھر مونٹیل کی طرف مڑتے ہوئے کہا، ’’پیپے نے یہ پنجرہ بنانے کا حکم دیا تھا۔‘‘ 
 ’’پیپے‘‘ وہ زور سے چلایا۔ 
 ’’وہ ابھی اسکول سے نہیں آیا ہے۔‘‘ بیوی نے سرگوشی کی۔تبھی پیپے دروازے میں نمودار ہوا۔ 
 وہ ۱۲؍ سال کا ایک خوبصورت بچہ تھا۔ وہ اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’یہاں آؤ،‘‘ مونٹیل نے اس سے کہا۔ ’’کیا تم نے پنجرہ بنانے کا حکم دیا تھا؟‘‘ 
 بچے نے سر جھکا لیا۔ مونٹیل نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر کیا اور کہا، ’’جواب دو۔‘‘بچے نے جواب دیئے بغیر اپنے ہونٹوں کو چبایا۔ ’’مونٹیل‘‘ بیوی نے سرگوشی کی۔ مونٹیل نے بچے کو جانے دیا اور غصے میں بالتھوزا کی طرف مڑا، ’’مجھے افسوس ہے، بالتھوزا،‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہیں یہ بنانے سے پہلے مجھ سے بات کرنی چاہئے تھی۔ تم نے ایک بچے کی بات پر پنجرہ بنا ڈالا۔ ‘‘
 اس نے پنجرے کو دیکھے بغیر اٹھایا اور بالتھوزا کو دیتے ہوئے کہا، ’’اسے لے جاؤ، اور جسے چاہو بیچ دو۔ مجھ سے بحث مت کرنا۔ ڈاکٹر نے مجھے غصہ کرنےسے منع کیا ہے۔‘‘ اس نے بالتھوزا کی پیٹھ تھپتھپائی۔ 
 بچہ پلکیں جھپکائے بغیر امید بھری نظروں سے پنجرے کو دیکھ رہا تھا۔ جب بالتھوزا پنجرہ لے کر جانے لگا تو بچہ فرش پر گر کر زور زور سے رونے لگا۔ مونٹیل نے اسے دیکھا جبکہ ماں نے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ’’اسے اٹھانے کی کوشش مت کرنا۔ یونہی تڑپنے دو۔‘‘ مونٹیل نے انتہائی غصے میں بیوی کو حکم دیا۔ 

’’اسے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘ مونٹیل نے غصے سے کہا۔بچہ چیخ رہا تھا مگر اس کی آنکھیں خشک تھیں۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا نشان تک نہ تھا۔
تقریباً چار بج رہے تھے۔ ’’پیپے،‘‘ بالتھوزانے کہا، اور مسکراتے ہوئے پنجرہ اس کی طرف بڑھایا۔ بچے نے خوشی سے چھلانگ لگائی اور پنجرے کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ پنجرے کی اونچائی تقریباً پیپے کے قد جتنی ہی تھی۔ وہ پنجرے کی تاروں کے پیچھے سے بالتھوزا کو دیکھ رہا تھا مگر لب خاموش تھے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ تک نہیں نکلا تھا۔
 ’’بالتھوزا،‘‘ مونٹیل نے کہا۔ ’’پنجرہ لے جاؤ۔‘‘ 
 ’’پنجرہ واپس دو،‘‘ مونٹیل کی بیوی نے بچے کو حکم دیا۔’’رہنے دو، اسے تم ہی رکھو۔ مَیں نے یہ تمہارے لئے ہی بنایا ہے۔‘‘ بالتھوزا ، مونٹیل کو دیکھ رہا تھا مگر بات بچے سے کررہا تھا۔ 
 مونٹیل نے کہا، ’’بالتھوزا! بے وقوفی مت کرو۔ اپنا پنجرہ یہاں سے لے جاؤ۔ معاوضہ کے نام پر مَیں تمہیں ایک پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا۔‘‘ 
 ’’کوئی بات نہیں،‘‘ بالتھوزا نے کہا۔ ’’مَیں نے اسے پیپے کیلئے بطور تحفہ بنایا ہے۔ 
 جب بالتھوزا دروازے کے باہر کھڑے تماشائیوں کے درمیان سے گزر رہا تھا تو مونٹیل پیچھے کھڑا چیخ رہا تھا، ’’تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔ تم مجھے تحفہ دوگے؟ کم حیثیت آدمی۔ اپنا یہ کباڑ یہاں سے لے جاؤ۔‘‘ مگر بالتھوزا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 
 پول ہال (علاقہ کے ایک ریستوراں کا نام) میں بالتھوزا کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس نے سوچا کہ دوسروں کے مقابلے میں ایک بہتر پنجرہ بنانا کوئی خاص بات نہیں ہے مگر لوگوں کے نزدیک یہ خاص بات تھی۔ اس سوچ نے بالتھوزا کو جوش سے بھردیا۔ 
 ’’کیا اس نے تمہیں پنجرے کیلئے ۵۰؍ پیسو دیئے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
 ’’نہیں، ساٹھ۔‘‘ بالتھوزا نے جواب دیا۔ 
 ’’یہ تو بہت بڑی بات ہے۔ مونٹیل جیسے کنجوس سے اتنی بڑی رقم نکلوانا آسان نہیں ہے۔ ہمیں جشن منانا چاہئے۔‘‘ مجمع میں سے کسی نے کہا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا ترجمہ: معمر پری زاد

 اور پھر مختلف قسم کے رنگ برنگے مشروبات مجمع کو پلائے جانے لگے۔ ان سب کی ادائیگی بالتھوزا کرنے والا تھا۔ بالتھوزا نے یہ مشروب کبھی نہیں چکھا تھا۔ اس پر عجیب سے نشہ طاری ہوگیا تھا۔ اسی نشے میں اس کے ذہن میں شاندار پنجرہ بنانے کا منصوبہ تھا۔ وہ ایسے ایک ہزار پنجرے بنانا چاہتا تھا تاکہ ان میں سے ہر ایک کو ۶۰؍ پیسو میں بیچے، اس طرح وہ چند مہینوں میں کروڑ پتی بن جاتا۔ پھر وہ بڑبڑایا، ’’ہمیں امیروں کیلئے بہت سی چیزیں بنانی چاہئیں۔ یہ سب بیمار ہیں اور آہستہ آہستہ مررہے ہیں۔ وہ سب بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اتنے بگڑے ہوئے کہ انہیں کوئی سدھار نہیں سکتا۔‘‘ وہ مجمع کے درمیان گراموفون بجاکر کچھ گاتا رہا، لوگ اس کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کرتے رہے۔ وہاں موجود ہر شخص نے بالتھوزا کی صحت، خوش قسمتی اور لمبی عمر جبکہ امیروں کی موت کی دعا کی۔ جب رات کے کھانے کا وقت ہوا تو سب اسے تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ ریستوراں میں اکیلا تھا۔
 ارسولا ۸؍ بجے تک اس کا انتظار کرتی رہی۔ اس نے تلے ہوئے گوشت اور پیاز کا لذیذ پکوان بنایا تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ اس کا شوہر پول ہال میں ہے، اور بہت خوش ہے۔ لیکن ارسولا نے ان باتوں پر یقین نہیں کیا کیونکہ اس کا شوہر پول ہال کبھی نہیں جاتا تھا۔ آدھی رات ہوگئی۔ بالتھوزا نہیں آیا۔ ارسولا سونے کیلئے اپنے کمرے میں آگئی۔ 
 بالتھوزا ریستوراں میں روشنیوں سے سجے ہال میں بیٹھا تھا۔ اس پر نشہ حاوی ہونے لگا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھنے سے قاصر تھا۔ اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ اس نے پورے مجمع کی دعوت کی تھی مگر جیب خالی تھی۔ اس نے اگلے دن کی ادائیگی کا وعدہ کرتے ہوئے اپنی گھڑی پول ہال کے مالک کے پاس گروی رکھ دی، اور بمشکل چلتا ہوا باہر آگیا۔
 چند لمحوں بعد اسے احساس ہوا کہ وہ کسی تاریک گلی میں لیٹا ہوا ہے اور کوئی اس کے جوتے اور کپڑے اتار رہا ہے۔ لیکن وہ وہیں پڑا رہا۔ اس نے جنبش تک نہ کی۔ وہ امیروں کی طرح زندگی گزارنے والے اپنے خواب کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ صبح ۵؍ بجے چرچ جانے والی خواتین کے ایک گروہ نے گلی میں پڑے برہنہ بالتھوزا کی طرف یہ سوچ کر جانے کی ہمت نہیں کی کہ شاید یہ آدمی مرچکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK