خطرے اور دلچسپی سے پُر جنگل کی سیر کی کہانی۔
EPAPER
Updated: August 31, 2024, 1:55 PM IST | Madan Lal Manchanda | Mumbai
خطرے اور دلچسپی سے پُر جنگل کی سیر کی کہانی۔
حامد بھیّا مجھے ایک خوبصورت مقام دکھانے کیلئے اپنی جیپ میں ایک گھنے جنگل میں لے گئے۔ ہر طرف سناٹا تھا یکایک انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’تم نے شیر دیکھا ہے؟‘‘ ’’کیوں نہیں؟ مَیں نے کئی سرکس اور چڑیا گھر دیکھ رکھے ہیں۔‘‘ مَیں نے بڑے فخر سے جواب دیا۔ حامد بھیّا نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور اپنی شرارت بھری آنکھیں ایسے گھمائیں جیسے مَیں نے تو کبھی کچھ دیکھا ہی نہیں۔ کہنے لگے، ’’تو تم نے واقعی شیر نہیں دیکھا ہے؟‘‘ ’’کوئی بلّی دیکھی ہے.... کہہ دیجئے نا؟‘‘ میں بھی کٹ گئی اور اپنے بڑے بڑے دیدوں کی پتلیاں پھیلا کر بولی۔ ’’شیر ببر دیکھا ہے۔ شیر ببر!‘‘ ’’حقیقی شیر تو جنگل میں ہوتا ہے۔‘‘ بھیّا نے کچھ رک کر کہا۔ ’’اور چڑیا گھر میں؟‘‘ ’’قیدی!‘‘ ’’ذرا اس جنگل کے دیوتا کے سامنے جا کر تو دکھایئے۔‘‘ ’’یقین مانو، آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘ ’’بوٹی بوٹی چبا جائے گا۔‘‘ ’’ہرگز نہیں۔‘‘ ’’بھیّا! یہ سفید جھوٹ میرے ساتھ نہیں چل سکے گا۔‘‘
’’یہ قطعی درست ہے! جب تک شیر پر وار نہیں ہوتا وہ انسان پر حملہ نہیں کرتا۔‘‘ ’’رہنے بھی دیجئے بھیّا! آپ کے خیال میں کیا شیر بھی پنچ شیل اصولوں پر کاربند ہے؟‘‘ ’’اس میں شک ہی کیا ہے۔‘‘ ’’تو کیا اخبار والے جھوٹ لکھتے ہیں؟‘‘ آئے دن یہ خبریں چھپتی ہیں کہ شیر نے فلاں گاؤں کی حدود میں ایک دیہاتی کی جان لے لی۔‘‘ ’’یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب شیر آدم خور بن جاتا ہے۔ ایک بار بھی اگر اُس کے منہ انسانی خون لگ جائے تو آس پاس کے بیس تیس کوس تک کی دوری پر بسے ہوئے دیہات کی خیر نہیں رہتی۔ ’’جنگلوں میں بھی تو ایسی وارداتوں کی خبریں سنی گئی ہیں کہ جاتے جاتے کسی شیر نے کسی چرواہے کو پکڑ لیا اور اس کا قصہ پاک کر دیا۔‘‘ ’’جب شیر بوڑھا اور کمزور ہوجاتا ہے اور اپنا شکار کرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ کسی ایک مقام پر پڑا اپنے نزدیک سے گزرنے والے ہر جانور یا انسان کو پکڑ کر اپنا پیٹ بھر لیتا ہے۔‘‘
سڑک سیدھی تھی اور اس کی سُرخ مٹّی ایسی نظر آرہی تھی جیسے میلوں تک سُرخ قالین بچھا ہو۔ ہماری جیپ فراٹے بھرتی جا رہی تھی اور پیچھے دھول کے بادل اُٹھ رہے تھے۔ دونوں طرف سبز بانسوں کے اونچے درخت تھے جو اتنے گھنے تھے کہ نظر دو تین گز تک جا کر اٹک جاتی تھی۔ کوئی ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری جیپ ایک گیٹ سامنے جا رُکی۔ حامد بھیّا جیپ سے اُتر کر چوکی پر رکھے ہوئے رجسٹر کی خانہ پُری کرنے لگے اور مَیں گیٹ کے قریب لگے ہوئے ایک نوٹس بورڈ کو پڑھنے لگی جس پر بندوق یا کارتوس اندر لے جانے کی سخت ممانعت کر رکھی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں بھیّا لوٹے۔ اُن کے ہمراہ خاکی وردی میں ایک گائیڈ اور اُسکے دو ساتھی بھی تھے جو فوراً ہی جیپ پر سیٹوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور حامد بھیّا جیپ کو اندر لے آئے۔ جنگل بے حد گھنا تھا، سورج ڈوب چلا تھا۔ حامد بھیّا نے اسٹیرنگ گھمایا ہی تھا کہ ہرنوں کی ایک ڈار قلانچیں بھرتی ہمارے سامنے سے گزر گئی۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’’کتنے خوبصورت ہیں یہ!‘‘
حامد بھیّا مسکرائے اور ساتھ ہی جیپ کی رفتار تیز ہوگئی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگا۔ مَیں حامد بھیّا کی طرف مڑ کر بیٹھ گئی۔ ’’بھیّا! یہاں بندوق لانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’یہ جانوروں کی سرکاری پناہ گاہ ہے اس میں جنگل جانوروں کی حفاظت کی جاتی ہے۔‘‘ ’’اور بے چارے انسانوں کو بندوق تک لانے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘ ’’احتیاطاً ہم ایک ڈنڈا تو رکھ سکتے ہیں۔‘‘ ’’اس سے فائدہ؟ بھئی تم صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟ لو ہم اس جیپ کو مہارتھی ارجن کارتھ بنائے دیتے ہیں۔ اب اس کے قریب کوئی پھٹکنے کی جرأت نہ کرسکے گا۔‘‘ حامد بھیّا نے بٹن دبایا اور جیپ کی ہیڈ لائٹس سے روشنی کا آبشار بہہ نکلا۔ اب اس کے تیز نگاہ کی کوئی تاب نہیں لاسکتا۔ اس کی تیز روشنی سے خونخوار جانوروں کی روح قبض ہوجاتی ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ پیچھے کھڑے دو آدمیوں کے ہاتھوں میں سرچ لائٹ کے دو جگمگاتے قمقمے تھے۔ جنہیں وہ دائیں بائیں جنگل میں آگے اور پیچھے گھما رہے تھے۔ روشنی کی ایک تیز لکیر دور تک لہراتی اور جنگل کی تاریکی میں بھٹک جاتی۔ معاً پیچھے سے آنے والی ایک آواز سے میں چونک اٹھی۔ ’’وہ رہا۔‘‘
حامد بھیّا نے ایک دم بریک لگائے۔ میں بمشکل سنبھلی جیپ کے پہیے تیزی سے پیچھے کو گھومے۔ دور جنگل میں زمرد کا ایک بڑا سا ٹکڑا چمکتا ہوا دکھائی دیا جس سے سبز شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ پھر یہ زمرد کا ٹکڑا اپنی جگہ سے آگے پیچھے ہلتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ہی سرچ لائٹ بھی آگے پیچھے ہوتی۔ چند ہی لمحوں میں ایک ’’چیتل‘‘ (ہرن کی ایک قسم) گھنے درختوں سے باہر آنا دکھائی دیا۔ اور ایک طرف کو بھاگ گیا۔
حامد بھیّا نے پھر جیپ چلا دی۔ اب مجھے بھی یقین ہوچلا تھا کہ روشنی کی بے پناہ قوت کی کوئی جنگلی جانور تاب نہیں لاسکتا۔ مَیں نے محسوس کیا یہ جیپ نہایت مضبوط چلتا پھرتا قلعہ ہے۔ میرے دل کے بہت سے اندیشے اب دور ہوچکے تھے کہ حامد بھیّا نے پھر سے تیزی سے بریک لگائے۔
یہ بھی پڑھئے:لوک کہانی: آدم کا بیٹا اور شیر
رات کی طرح کالی آٹھ نو جنگلی بھینسیں سڑک کاٹ کر ایک سمت جارہی تھیں۔ جیپ کو اُن کے نزدیک لے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ ایک دن ایک جیپ ڈرائیور نے ان جنگلی بھینسوں کو ذرا سا چھیڑ دیا انہوں نے طیش میں جیپ پر حملہ کر دیا۔ جیپ میں بیٹھے ہوئے لگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے لیکن بھینسوں نے ٹکریں مار مار کر جیپ کا کچومر نکال دیا۔ میں نے اس وقت لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جب یہ بڑے سینگوں والی جنگلی بھینسیں چپ چاپ اندھیرے میں کھو گئیں اور ہماری جیپ آگے بڑھی۔ سڑک کے ایک موڑ پر جب ہم پہنچے تو گائیڈ نے جیپ کو بائیں طرف ڈھلان میں ایک کچے راستے پر لے جانے کو کہا۔ بھیّا نے جیپ کو اُس راستے پر ڈال دیا۔ جیپ مسلسل گہرائی میں اترتی جارہی تھی۔ آخر ڈھلان پر پڑے ہوئے موٹے موٹے پتھروں کے قریب جیپ رُکی۔ حامد بھیّا نے مجھے اُترنے کیلئے کہا۔ سنسان جنگل۔ آدھی رات۔ بھیانک اندھیرا اور پتّوں سے لدے گھنے درخت جنہوں نے آسمان کے ستاروں کو ہماری نظر سے اُوجھل کر دیا تھا۔ ہم چپ چاپ برساتی نالے جو اِس موسم میں خشک تھا پار کر رہے تھے۔ میری سانس اوپر نیچے ہورہی تھی کہ گائیڈ کی بات نے میری توجہ کھینچی۔ اُس نے کہا، ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں مَیں دن کو بھی آتے گھبراتا ہوں۔‘‘ میرا دل دَھک دَھک کرنے لگا۔ مَیں نے اپنی سانس تک روک لی تاکہ جنگل میں ہونے والی آہٹ کو میرے کان فوراً سن سکیں۔
سامنے لکڑی کا ایک مضبوط مچان تھا۔ کم از کم سو ڈیڑھ سو سیڑھیاں ہوں گی۔ سب سے پہلے سیڑھیوں پر مَیں چڑھی۔ میرے پیچھے حامد بھیّا اور اُن کے پیچھے گائیڈ اور اسکے ساتھی تھے۔ میری ٹانگیں حقیقت میں کانپ رہی تھیں۔ لیکن مَیں چاہتی تھی کہ میری بزدلی حامد بھیّا پر نہ کھلے۔ اسلئے مَیں اپنے سینڈل کو بار بار سیڑھی پر پٹخ دیتی تھی، تاکہ سینڈل کی آواز سے حامد بھیّا کو یقین آجائے کہ میری ٹانگیں کانپ نہیں رہی ہیں بلکہ میرے پاؤں ہی سیڑھیوں پر غلط پڑ رہے ہیں۔ وہ بار بار مجھے خبردار کر رہے تھے ’’سنبھل کے! گرنا نہیں!‘‘ خدا خدا کرکے جب میں آخری سیڑھی پر پہنچی تو مجھے محسوس ہوا کہ آگے کوئی راستہ نہیں تھا۔ میرے اوپر ایک چھت سی تھی۔ حامد بھیّا نے ہاتھ بڑھا کر لکڑی کے تختے کو اوپر اٹھایا دو تین سیڑھیاں اور دکھائی دیں، اُن پر چڑھنے کے بعد ہم مچان کے اوپر آگئے۔ ’’حامد بھیّا یہ تختہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’شرارتی بھالو اُلٹے پاؤں مچان پر بھی چڑھ آتا ہے۔‘‘ ’’مچان پر بھی؟‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا اور پھر فوراً خود ہی بڑھ کر اس تختے کو نیچے گرا دیا۔
چاروں طرف سناٹا تھا۔ بھیانک سناٹا میلوں تک پھیلے ہوئے جنگل کا سکوت بھی عجیب ہوتا ہے۔ ہوا بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ ایک پتہ تک نہیں ہل رہا تھا۔ سب کی نظریں جھیل کی اس لمبی کھاڑی کی طرف لگی تھیں جہاں شیر پانی پینے اکثر آتا تھا۔ حامد بھیا، گائیڈ اور ان کے ساتھی نہایت اطمینان سے بیٹھے شیر کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن میں خوف سے ہلکان ہورہی تھی۔
کوئی ڈیڑھ گھنٹے انتظار کرنے کے بعد جب ہمیں کوئی شیر دکھائی نہ دیا تو ہم سب مایوس مچان سے اترے۔ حامد بھیّا کچھ زیادہ ہی اداس تھے کہ وہ مجھے حقیقی شیر نہ دکھا سکے۔ مَیں خوش تھی جب میں جیپ میں آکر بیٹھی اور جیپ سے روشنی کا آبشار اُبلنے لگا تو مَیں نے اطمینان کی سانس لی۔
جیپ تھوڑی ہی دیر میں جھیل کے گرد بنی ہوئی سڑک پر گھومنے لگی۔ جھیل کے ساکت پانی میں ستارے جھلمل کر رہے تھے۔ کنارے پر کہیں کہیں اکّا دُکّا ہرن، چیتل، بارہ سنگھے پانی پیتے دکھائی دے جاتے اور سرچ لائٹ پڑتے ہی اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیتے تھے۔ مگر مچھوں کا ایک شاندار جوڑا بھی ساحل پر ریت کے بستر پر نیند میں سرشار تھا۔ ہم نے جیپ روک لی۔ سرچ لائٹ کی مسلسل روشنی میں یہ جوڑا بھی بیدار ہوکر آہستہ آہستہ جھیل کے پانی میں رینگ کر نظروں سے غائب ہوگیا۔ اب جھیل کا چکّر مکمل ہوچکا تھا۔ حامد بھیّا نے جیپ کا رُخ پہاڑی پر بنے ہوئے گیسٹ ہاؤس کو جانے والی سڑک کی طرف پھیر دیا۔ چند ہی منٹوں میں ہم گیسٹ ہاؤس میں پہنچ گئے۔ ہم کافی تھکے ہوئے تھے اسلئے پہنچتے ہی بستروں پر لیٹ گئے۔ بیرے نے کھڑکیاںا ور دروازے اندر سے بند کر دیئے اور خود اندر کے دروازے سے کہیں چلاگیا۔ نیند نے ہمیں چند ہی گھیر لیا اور ہم سوگئے۔
ابھی نہ معلوم کتنی رات باقی تھی کہ مسلسل کھڑکھڑاہٹ سے میری نیند اچاٹ ہوگئی مجھے ایسا لگا جیسے شیر گیسٹ ہاؤس کے قریب درختوں کے جھنڈ تک آگیا ہے، اور اس کے چلنے سے سوکھی لکڑیاں تڑاخ پڑاخ ٹوٹ رہی ہیں۔ پھر یہ آواز نہایت قریب سے آتی معلوم ہوئی اور پھر جیسے دروازے کو کسی نے زور سے جھنجھوڑ دیا۔ مَیں نے حامد بھیّا کو آواز دینی چاہی، لیکن آواز میرے گلے ہی میں رک گئی۔ دروازے پر بدستور یورشیں جاری تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ اس کے پٹ ٹوٹ کر گرنے کو ہیں۔ یکایک دروازے پر ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی میرے بستر پر کچھ گرا۔ میری چیخ نکل گئی: ’’بھیّا شیر....‘‘
حامد بھیّا نے لپک کر میز سے ٹارچ اٹھائی اور دروازے کی طرف روشنی کی۔
’’بھیّا شیر....‘‘ مَیں حواس باختہ ہو کر دوبارہ چلّائی ہی تھی کہ میری نظر ٹارچ کی روشنی میں بند کواڑ پر پڑی۔ ’’شہر نہیں.... شیر ببر!‘‘ حامد بھیّا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔
اسی وقت ایک موٹا سا جنگلی چوہا دروازہ کے قریب رکھی لکڑی کی الماری کے پیچھے تیزی سے بھاگ کر غائب ہوگیا۔ ویسی ہی کھڑکھڑاہٹ میرے کانوں میں پھر سنائی دی۔ لیکن اب کے کچھ کم۔ رات کی بھیانک تاریکی اور میرے دل کے ڈر نے اس میں وہ گونج پیدا کر دی تھی کہ مَیں نے اسے شیر کے آنے کی آواز تصور کر لیا تھا۔
(چراغِ آرزو سے ماخوذ)