• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: اور ہم مٹی سے بنائے گئے ہیں

Updated: October 18, 2024, 3:32 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف چلی امریکی مصنفہ ایزابیل الاندے کی شہرہ آفاق کہانی ’’اینڈ آف کلے آر وی کریئٹیڈ‘‘  And Of Clay Are We Created کا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

سبھی نے دیکھا کہ اُس لڑکی کا صرف سر ہی مٹی کے گہرے گڑھے سے نکلا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں خوف مترشح تھا۔ اس کے منہ سے اب تک صرف ایک لفظ نکلا تھا ’اَزوسینا۔‘ یہ گاؤں اب ایک بڑے قبرستان میں بدل گیا ہے جس پر ہر وقت گدھ منڈلاتے رہتے ہیں اور یہاں کی فضا یتیموں کی سسکیوں اور زخمیوں کی کراہوں سے گونجتی رہتی ہے۔ اس ماحول میں وہ ۱۳؍ سالہ لڑکی زندہ رہنے کی کوشش کررہی تھی۔ کیمروں کی تیز روشنی میں اس لڑکی کا چہرہ دنیا کے تمام ٹی وی پر نظر آرہا تھا۔ جب بھی اس کا چہرہ ٹی وی پر نظر آتا اس کے ساتھ ہی ’’رولف کار لے‘‘ بھی دکھائی دیتا۔ وہ وہاں اس خبر کے احاطہ کیلئے موجود تھا مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اسے یہاں اس کا ۳۰؍ سال پہلے گزرا بچپن مل جائےگا۔

 ایسا محسوس ہوا کہ کپاس کے کھیتوں سے روئی اڑ رہی ہو اور پھر لگا کہ ہر طرف جسم جلا دینے والا جھاگ بہنے لگا ہو۔ ماہرین ارضیات کئی ہفتے پہلے ہی اس گاؤں میں آگئے تھے کیونکہ یہاں کے بلند و بالا پہاڑ کا آتش فشاں پھٹنے والا تھا۔ سائنسدانوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ اس پہاڑ سے نکلنے والا لاوا یہاں موجود برف کو ہمیشہ کیلئے پگھلا دے گا۔ مگر اس بات کا اثر گاؤں کے کسی بھی شخص پر نہیں ہوا۔ شاید انہیں یہ سب کہانی لگ رہا تھا۔ لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہے حتیٰ کہ نومبر میں بدھ کی رات برف کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں اور ایک بلند آواز نے اعلان کردیا کہ اب اس ابلتے لاوے میں گاؤں اور گاؤں کے لوگ دب کے رہ جائینگے۔ اس خوفناک آفت کے بعد بچ جانے والے لوگوں نے دیکھا کہ ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ عمارتیں ڈھے چکی تھیں۔ گلیوں میں سیاہ سیال بہہ رہا تھا۔ کافی دیر بعد امدادی ٹیم جائے حادثہ پر پہنچی تھی۔ کم و بیش ۲۰؍ ہزار لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔ اس کے گاؤں کے جنگل اور دریا سب ختم ہوچکے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ:لارڈ اوکھرسٹ کی بددُعا

صبح جب ٹی وی چینل سے فون آیا تو رولف سورہا تھا۔ مَیں نیند کے خمار میں کافی بنانے لگی۔ فون کے بعد رولف نے جلدی جلدی اپنا سامان باندھا اور اس خبر کے احاطے کیلئے نکل پڑا۔ وہ جائے حادثہ پہ پہنچنے والا پہلا شخص تھا۔ رولف کی مدد سے ہم نے ٹی وی پر سب کچھ لمحہ بہ لمحہ دیکھا۔ رولف کو لوگ جانتے تھے۔ وہ برسوں سے ٹی وی پر آرہا تھا۔ جنگوں، سیلابوں اور طوفانوں، ہر طرح کی ہولناک آفت پر انہوں نے رولف کو دیکھا تھا۔ وہ ان آفات کا کوریج کرنے میں ماہر ہوچکا تھا۔ اسے خوف آتا تھا نہ اکتاہٹ ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ کیمرے کے لینس کے ساتھ ہی وہ صورتحال رولف کے وجود کا حصہ بن جاتی تھی۔ وہ لوگوں کی تکالیف کو اپنے اوپر طاری کرکے اپنے جذبات چھپائے رکھتا تھا۔
 رولف ، ازوسینا کی کہانی میں ابتداء ہی سے موجود تھا۔ اس نے ان رضا کاروں کا بھی انٹرویو لیا جو ازوسینا تک پہنچے تھے۔ گہرے رنگ اور بڑی آنکھوں والی لڑکی مٹی میں اٹی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس ڈوبتی ہوئی لڑکی کو نکالنا بہت مشکل ہے۔ رضاکاروں نے ایک بڑا رسہ اس کے قریب پھینکا مگر وہ اس تک نہیں پہنچ سکی۔ جب رضا کاروں نے بآواز بلند اسے رسہ پکڑنے کیلئے کہا تو اس نے ایک ہاتھ سے کوشش کی مگر لاوے کی دلدل میں مزید دھنس گئی۔ ہر طرف لاشوں اور لاوے کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ اور سردی بڑھتی جارہی تھی۔ 
 ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ رولف نے لڑکی سے پوچھا۔
 اس نے اپنا نام ’’ازوسینا‘‘ بتایا۔ 
 ’’بالکل حرکت مت کرو۔‘‘  رولف چیخا اور پھر اس سے باتیں کرتا رہا۔ رولف نے بات جاری رکھی تاکہ لڑکی کی توجہ کسی اور طرف مبذول نہ ہوجائے۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بھی بڑھتا جارہا تھا۔ رولف کمر تک دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ پھر اس نے ایک رسہ لیا اور لڑکی کے قریب پہنچ کر اسے لڑکی کے بازو سے باندھ دیا۔ اسے تسلی دی کہ بس کچھ دیر کی بات ہے۔ پھر اس نے رضاکاروں کو لڑکی کو کھینچنے کا اشارہ کیا۔ جب رسہ کھینچا گیا تو لڑکی تکلیف کی شدت سے چیخ اٹھی۔ اس کا باہر نکلنا محال نظر آرہا تھا۔ کسی نے کہا کہ شاید ٹوٹے ہوئے گھر کی دیواروں میں اس کا پاؤں پھنسا ہوں، مگر لڑکی نے آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ جواب دیا کہ یہ دیوار نہیں ہے بلکہ اس کے بہن بھائیوں نے اس کے دونوں پاؤں پکڑ رکھے ہیں۔یہ سن کر وہاں موجود سبھی لوگ سکتہ کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
 ’’پریشانی کی بات نہیں، ہم تمہیں نکال لیں گے۔ ‘‘ رولف نے کہا، اور اس نے پھر کوشش کی۔ تکلیف میں مبتلا لڑکی بمشکل سانس لے پارہی تھی مگر وہ مایوس نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ جو کچھ مقدر میں ہے ہو کر رہے گا جبکہ رولف اسے موت کے منہ سے نکالنے کیلئے جدوجہد کررہا تھا۔ کسی نے اسے ایک ٹائر لاکر دیا۔ رولف نے وہ ٹائر لڑکی کے بازو کے نیچے رکھا کہ شاید اس پر وزن ڈال کر لڑکی کو باہر نکال لے گا مگر پھسلن اتنی تھی کہ کوئی ترکیب کارگر ثابت نہیں ہورہی تھی۔ آخرکار ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ پمپ والی گاڑی لائی جائے۔ مگر جواب ملا کہ کل صبح سے پہلے یہ ناممکن ہے۔
 ’’ہم اتنا انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘ رولف چیخا لیکن قدرت کے فیصلے تو قدرت ہی جانتی ہے۔ اب کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اتنے میں ایک فوجی ڈاکٹر قریب آیا اور اس نے لڑکی کی دھڑکنیں چیک کی جو بالکل ٹھیک تھیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ’’اگر لڑکی کو سردی نہ لگے تو یہ صبح تک انتظار کرسکتی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی رولف نے کہا، ’’ازوسینا، ہمت رکھو ۔ ہم تمہیں کل صبح نکال لیں گے۔‘‘ 
 ’’مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جایئے۔‘‘ لڑکی نے آنسو بھری آنکھوں سے التجا کی۔
 ’’نہیں، نہیں، مَیں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ رولف نے بے تابی سے کہا۔
 کوئی اتنی دیر میں کافی لے آیا۔ رولف نے ازوسینا کو کافی پلانے میں مدد کی۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد وہ کافی پینے میں کامیاب ہوگئی۔ کافی کی گرمی نے اس کے اندر جان پیدا کردی تھی اور اب وہ رولف کو اپنے بچپن کی باتیں بتارہی تھی اور آتش فشاں پھٹنے کے واقعات د ہرا رہی تھی۔ وہ تیرہ سال کی تھی اور کبھی گاؤں سے باہر نہیں گئی تھی۔ رولف یہی سوچ رہا تھا کہ چند گھنٹوں کی بات ہے، اس لڑکی کو بچالیا جائے گا۔ مگر صبح اطلاع ملی کہ پمپ خراب ہے۔ کسی دوسرے علاقے سے منگوانا پڑے گا۔

 آج دوسرا دن تھا۔ ’’آسمان رو رہا ہے۔‘‘ ازوسینا نے ہلکی آواز میں کہا۔
 ’’ڈرو مت۔‘‘ رولف بولا۔ ’’ہمت رکھو۔ مَیں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘
 چند رپورٹرز ازوسینا کی تصویریں کھینچنے کیلئے آئے اور اس سے وہی سوال کئے جن کا جواب وہ نہیں دینا چاہتی تھی۔ اب ازوسینا ہر طرح کے میڈیا کے لوگوں کے گھیرے میں تھی۔ اس کے چہرہ کیمرے کی روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ پوری دنیا اپنے ٹی وی پر اسے دیکھ رہی تھی۔ رولف پمپ منگوانے کی مسلسل التجا کررہا تھا۔ مگر پورا دن گزر گیا۔ کوئی ترکیب کارگر نہیں ثابت ہوئی اور نے پمپ آسکا۔ جب اندھیرا ہوا تو رولف نے لڑکی کو قدیم آسٹریا کی لوک کہانیاں سنانی شروع کیں مگر وہ تو سو بھی نہیں سکتی تھی۔ دونوں ساری رات طرح طرح کی باتیں کرتے رہے۔ دونوں ہی بھوک سے بے حال تھے۔ سردی بڑھتی جارہی تھی۔ تاریک رات، تنہائی، بھوک اور سرد ماحول نے رولف کے ۳۰؍ سال سے چھپے جذبات کو ابھارنے کا کام کیا۔ اور اس نے ازوسینا کو وہ سب بتا دیا جو اس نے آج تک کسی سے نہیں بتایا تھا۔
 ازوسینا اس بارے میں سوچ ہی نہیں سکتی تھی کہ جنگ کے دنوں میں یورپ کا کیا حال تھا۔ رولف نے اسے اس شام کا احوال بتایا جب انہیں روسیوں نےجنگی قیدیوں کے کیمپوں میں دھکیل دیا تھا۔ جو قیدی بھوک سے مرگئے تھے، انہیں اس کے سامنے دفن کیا گیا تھا۔ وہ اس چھوٹی بچی کو کیسے بتاتا کہ کس طرح اس کے سامنے مردوں اور ہڈیوں کے ڈھانچے ، کانچ کی کرچیوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔ وہ لاوے اور کیچڑ میں پھنسی اس بچی کو پھانسیوں اور کوڑوں کے بارے میں کیسے بتاتا۔ وہ کیسے بتاتا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی والدہ کو رسوا کیا گیا تھا۔

 آج تیسرے دن کا سورج طلوع ہوا تھا۔ بچی اسی طرح لاوے اور کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھی اور رولف اس کے قریب موجود تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا سہارا بن گئے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہتے تھے۔ رولف اپنے ماضی میں ڈوب گیا تھا اور ۱۳؍ سالہ بچی اس کی بہترین دوست بن گئی تھی۔ پھر اس نے ازوسینا کو کترینہ نامی ایک معذور لڑکی کے بارے میں بتایاجس نے اپنی ساری زندگی باپ سے چھپ کر صرف اسلئے گزاری کہ باپ اس کی پیدائش پر برہم تھا۔ کترینہ کی موت پر شاید رولف پہلی مرتبہ رویا تھا۔ پھر اس نے ازوسینا کو رپورٹر بننے کی اپنی کہانی سنائی اور بتایا کہ کس طرح آج اسے پوری دنیا جانتی ہے۔ 
 رولف غالباً ازوسینا ہی تھا جو اپنے ماضی اور یادوں کی منوں مٹی تلے دبا ہوا تھا۔ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے کب آنسو جاری ہوگئے، اسے سمجھ ہی نہیں آیا۔ اب اسے اپنی ماں نظر آرہی تھی۔ تبھی اچانک بادل چھا گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ اس صدی کا سب سے ہولناک آتش فشاں حادثہ تھا۔ 

 تین دن اور دو راتیں گزر چکی تھیں۔ لڑکی نے کرب کے عالم میں رولف کو کہا کہ ’’آج تک کوئی بھی مجھ سے محبت سے پیش نہیں آیا اور مَیں بغیر محبت کے اس دنیا سے رخصت نہیں ہونا چاہتی۔‘‘ یہ سنتے ہی رولف نے کہا کہ وہ دنیا میں اب سب سے زیادہ محبت ازوسینا سے کرتا ہے۔ اس نے معصوم بچی کے مٹی سے لتھڑے ماتھے پر شفقت سے بوسہ دیا۔ اسے احساس ہورہا تھا کہ شاید اب بچی کو بچانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ بچی اتنے دنوں سے ایک ہی حالت میں لاوے میں پھنسی ہوئی ہے۔ شاید اس کی ہمت بھی جواب دینے لگی ہے۔ وہ مٹی کی گرفت، آسمان پر منڈلاتے گدھوں اور ہیلی کاپٹر نیز سارے علاقے میں پھیلی بدعنوانیوں کے بیچ موت کو قبول کرنے کو تیار تھی۔ اب اس کے ہونٹ نیلے پڑنے لگے تھے۔ 
باقی صفحہ ۱۵؍ پر

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK