• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئی تعلیمی پالیسی کےنفاذ میں طلبہ پرمرکوز طرز ِعمل کا فقدان بڑی خامی ہے

Updated: January 07, 2025, 9:07 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

طلبہ کی عمر اور نفسیات کے علاوہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور نجی زندگی سے وابستہ امور میں ایسا توازن قائم کرنا ضروری ہےجو ان کی شخصیت کی فطری نشوو نما کو یقینی بنائے

The situation regarding the implementation of the new education policy is not satisfactory. Photo: INN
نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ تصویر: آئی این این

قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے تعلیمی معیار کے بہتر اور کار آمد ہونے کا دعویٰ گزشتہ کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کی تشکیل اور نفاذ کیلئےسرگرم سیاسی افراد اور ماہرین تعلیم کے ان دعووں کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس پالیسی میں طلبہ کی ذہانت اور لیاقت کو بہتر بنانے کیلئےجو التزامات کئے گئے ہیں وہ جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی ذہنی نشو ونما کیلئے مناسب اور معقول اسباب اور وسائل فراہم کرنے  پر زور دیتے ہیں۔ ان اسباب اور وسائل سے خاطر خواہ استفادہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ ان کو بروئے کار لاتے وقت طلبہ کی عمر اور نفسیات کے علاوہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور نجی زندگی سے وابستہ امور میں ایسا توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے جو ان کی شخصیت کی فطری نشوو نما کو یقینی بنائے۔ اگر قومی تعلیمی پالیسی کے مندرجات کا جائزہ مختلف سطح کے تعلیمی اداروں کے طرز عمل سے کیا جائے تو بعض امور میں ایساتجاوز نظر آتا ہے جو اس پالیسی کے ممکنہ خوش آئند نتائج کو وسیع پیمانے پرمتاثر کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ایسی دوستی، جس کیلئے ملک کی ساکھ داؤ پر لگادی گئی ہے

 قومی تعلیمی پالیسی کے کامیاب نفاذ کوملک کی ترقی و خوشحالی کی کلید قرار دیتے ہوئے پالیسی سازوں نے اس بات پر خصوصی زور دیا تھا کہ طلبہ کو مادری زبان میں حصول تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے علاوہ ان کے اندر تحقیقی، تجزیاتی اور تنقیدی شعور کو پختہ کرنا بنیادی اور اہم ہدف  ہو۔ ملک کے بیشتر حصوں میں اس پالیسی کے مطابق نصاب میں تبدیلی و ترمیم کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں کا ڈھانچہ نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تبدیلی و ترمیم کے اس عمل سے گزرنے کے باوجود پالیسی کے بنیادی ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ایسی متوازن حکمت عملی کا عموماً فقدان ہی نظر آرہا ہے جو تعلیمی مراحل اورطلبہ کی ذہنی صلاحیت و لیاقت میں اضافہ کے مابین نتیجہ خیز ربط قائم کر سکے۔ پالیسی کے اصولی نکات اور تعلیمی نظام کے رائج طرز عمل میں اس عدم توازن کا بنیادی سبب شعبہ  ٔ تعلیم کے ارباب اختیار  کا طلبہ کی تعلیمی زندگی کے ان تقاضوں کو نظر انداز کرنا ہے جو ان کی شخصیت کی ہمہ گیر ترقی کیلئے ناگزیرہیں۔

تعلیمی اداروں کے ارباب اختیار خواہ وہ تدریسی عملہ سے وابستہ ہوں یا غیر تدریسی سے، تعلیمی سال کی منصوبہ بندی میں طلبہ کی ضرورتوں اور سہولتوں سے زیادہ اپنی سہولت اورمنصب کی شان و حشمت کے اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے انعقاد میں اکثر ایسا طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے جو طلبہ کی فہم و فراست اور جسمانی صلاحیت میں اضافہ کے بجائے ان پر اضافی بوجھ بن جاتا ہے اور ان کی فطری نشو و نما کو پیچیدہ بنادیتا ہے۔ یہ صورتحال اگرچہ کلیہ نہیں تاہم بیشتر تعلیمی اداروں میں نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے حالات تقریباً یکساں ہیں۔ اس عہد میں سائنس اور تکنیک کی ترقی نے تعلیمی نظام سے وابستہ ان امور کو بھی یکسر تبدیل کر دیا ہے جو طلبہ کے تدریجی ارتقا میں ناگزیر  ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مودی کو ایوارڈ،چاپلوسی کی انتہا

  اس تبدیلی نے اکتساب و قدر پیمائی کے عمل میں ان نئے تکنیکی عوامل اور مادی وسائل کو شامل کر دیا ہے جوتعلیمی عمل میں طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبہ تجسس کو بھی تحرک عطا کرتے ہیں۔ ان عوامل اور وسائل سے خاطر خواہ فیض اسی صورت میں اٹھایا جا سکتا ہے جب تعلیمی نظام میں طلبہ  مرکوز طرز عمل کو ترجیح دی جائے۔   اس تناظر میں اگر مختلف سطح کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بہت اطمینان بخش نہیں نظر آتی۔ طلبہ  پرمرکوز طرز عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے صرف نصاب میں تبدیلی کردینا یا غیر نصابی سرگرمیوں کا ڈھانچہ بدل دینا کافی نہیں  ہے۔ اس ضمن میں غیر سرکاری اور سرکاری  تعلیمی اداروں کے حالات بہت مختلف نہیں ہیں۔ غیر سرکاری تعلیمی اداروں کا تجارتی رویہ نہ صرف طلبہ پر اضافی مالی بوجھ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ اس کے سبب انھیں ذہنی اور جسمانی سطح پر ایسی مشقت سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے ان کی فطری نشوو نما کی راہ میں مختلف قسم کے پیچیدہ جذباتی و نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل سے دوچار ہونے والے طلبہ  بعض اوقات امتحان میں اچھے ڈویژن سے پاس بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کامیابی کے باوجود زندگی کی ان اقدار سے ان کا رابطہ برائے نام ہوتا ہے جو کسی انسان کو ایک فرض شناس اور ذمہ دار شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو معیاری صورت میں انجام دینے کا متواتر دباؤ انھیں ہمیشہ ذہنی خلفشار میں مبتلا رکھتا ہے۔ اس خلفشار سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ طلبہ بعض اوقات ایسی راہ اختیار کر لیتے ہیں جو ان کی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ مرکوز طرز عمل کے فقدان کا معاملہ غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ اس ضمن میں دہلی کے سرکاری تعلیمی اداروں کو استثنائی حیثیت حاصل ہے۔ دہلی اور ملک کی چند ایک ریاستوں کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار میں تنزل کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ تعلیمی معیارکی اس گراوٹ کے کئی اسباب ہیں جن میں ایک اہم سبب طلبہ مرکوز طرز عمل کا فقدان ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں وہ بنیادی وسائل بھی اکثر ناپید ہوتے ہیں جو طلبہ کے تعلیمی مراحل کی تکمیل میں اہم معاون جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ نصاب کی تکمیل اور غیر نصابی سرگرمیوں میں طلبہ کی فعال شرکت کو یقینی بنانے کے لیے بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں ایسا جوش و خروش عموماً نظر نہیں آتا جو طلبا کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنا سکے۔ یہی سبب ہے کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ یا تو ذاتی طور پر جی توڑ محنت کرتے ہیں یا ٹیوشن اور کوچنگ پر بیشتر منحصر ہوتے ہیں۔ اس راہ سے کامیابی کے حصول کی خواہش اکثر اضافی مالی اور نفسیاتی مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اقتدار کی چاپلوسی کیلئے قومی وقار کا سودا کرنے والے مسلمان

طلبہ مرکوز طرز عمل کا فقدان ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مختلف سطح کے سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ مسئلہ بعض اوقات ایسی سنگین صورت میں دکھائی دیتا ہے جو ان اداروں سے وابستہ ارباب حل و عقد کی غیر سنجیدگی اور رعونت کو نمایاں کرتا ہے۔ اپنے اختیارات کے استعمال میں یہ افراد اس بنیادی حقیقت کو بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوو نما کو اسی وقت یقینی بنایا جا سکتا ہے جبکہ انھیں ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس عمل سے گزرتے وقت ان کے ذہن کو ان خدشات اور پریشانیوں سے دور رکھے جو شخصیت کی ہمہ گیر ترقی کی راہ میں رخنہ پیدا کر سکتی ہیں۔ طلبہ کو اپنے احکام کا پابند بنانے کی عادت نے تعلیمی اداروں سے وابستہ ارباب حل و عقد کے اندر بھی ایسی آمرانہ ذہنیت پیدا کر دی ہے  جو اپنی مرضی اور خواہش کے آگے تعلیمی نظام کے تقاضوں کو ہیچ سمجھتی ہے۔ اس ضمن میں انتظامی امور اور تدریسی عملے میں شامل افراد کا رویہ تقریباً یکساں نظر آتا ہے۔ ان افراد کا سارا زور کاغذی خانہ پری پر ہوتا ہے اور عملی سطح پر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی فکر انھیں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔

کسی بھی ملک یا معاشرہ کو ترقی یافتہ بنانے میں وہاں کے تعلیمی نظام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔  یہ نظام اگر طلبہ مرکوز طرز عمل کو ترجیح دیتا ہے تو اس کی افادیت دوچند ہو جاتی ہے ورنہ محض کاغذی خانہ پری سے صرف بڑے بڑے زبانی دعوے ہی کئے جا سکتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس وقت ملک میں تعلیم کے حوالے سے جو بڑے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں وہ بیشتر اسی نوعیت کے ہیں۔ طلبہ کی ضرورتوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ تعلیمی اداروں کے ارباب اختیار کا شیوہ ہو گیا ہے۔ یہی سبب ہے کی اصولی طور پر پالیسیاں تو خوب سوچ سمجھ کر بنائی جاتی ہیں لیکن ان کی تعمیل میں اس شفافیت اور دیانت داری کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو پالیسی کو کامیاب بنانے میں ناگزیر جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیمی عمل میں شفافیت اور دیانت داری کا یہ فقدان خصوصی طور سے طلبا کے تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ اضافی محنت کریں یا پھر تعلیمی امور کی انجام دہی میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر لیں۔ یہ دونوں راستے قومی تعلیمی پالیسی کے ان اہداف کو سر کرنے میں پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر ارباب اقتدار نے سابقہ تعلیمی پالیسی کو ترک کر کے تعلیمی نظام کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK