• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنبھل میں بلڈوزر اور خوف کی حکمرانی

Updated: January 06, 2025, 7:02 PM IST | Asim Jalal | Lukhnow

۲۴؍ نومبر کے تشدد اور ۵؍ افراد کی موت کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے، جاں بحق ہونےوالوں کے اہل خانہ کو انصاف ملنا تو دور کی بات ہے اس علاقے کو جس طرح نشانہ بنایا جارہاہے،وہ شرمناک اورقابل مذمت ہے

Extraordinary security arrangements are made in Sambhal every Friday. Photo: INN
سنبھل میں ہر جمعہ کو سیکوریٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

 سنبھل میں ۲۴؍ نومبر کے تشدد میں   ۵؍ افراد کی موت اور متعدد کے زخمی ہونے کےبعد انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس بات کی جانچ کی جاتی ہے کہ ۵؍ افراد کی اس موت کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ کس کی گولی سے جاں  بحق ہوئے، کورٹ کے یکطرفہ فیصلے کی بنیاد پر مسجد کا سروے کرنے کیلئے عین فجر بعد کے وقت کا انتخاب کیوں  کیا گیا، ایسی کیا آفت آگئی تھی کہ مقامی آبادی کو اعتماد میں  نہیں  لیاگیا، مسجد انتظامیہ تک کو پیشگی اطلاع نہیں   دی گئی اور حالات کے بگڑنے کے اندیشوں کو پہلے ہی  دور کرلینے کےبجائے کورٹ کمشنر کی قیادت میں  سروے کیلئے پہنچنے والی ٹیم میں   موجود وہ کون سے شرپسند عناصر تھےجو جے شری رام کا نعرہ بلند کر کے مقامی آبادی کو اشتعال دلارہے تھےا ور نتیجتاً ماحول کے بگڑنے کا سبب بنے؟ مگر ایسا نہیں  ہوا۔ اُن لوگوں  کے خلاف کوئی کارروائی نہیں  ہوئی جنہوں  نے مذہبی نعرے بلند کرکے ماحول کو خراب کیا بلکہ الزام ہے کہ کارروائی ایک ہی فرقہ کے خلاف ہوئی اور اب تک ہورہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: دہلی فساد: ۴؍سال بعد مقدمہ سے تو بری ہوگئے مگرخاندان تباہ ہوگئے

 ہم میں سے اکثرسنبھل کے اس تشدد کو بھول چکے ہیں۔ ملک کے سیکولر طبقہ نے اس بات پر راحت کا سانس لیا کہ سپریم کورٹ نے ’’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘‘ کے نفاذ سے متعلق پٹیشنوں پرسماعت کرتے ہوئے ذیلی عدالتوں کیلئے یہ حکم دے دیا ہے کہ اب وہ اس طرح کے کسی مقدمہ کو سماعت کیلئے منظور نہ کریں اور جو مقدمات پہلے ہی منظور کئے جاچکے ہیں ،ان پر کوئی فیصلہ نہ  سنائیں ۔ عدالت کایہ فیصلہ اطمینان کا باعث تو ہے مگر سنبھل کے عوام کیلئے راحت کا سامان نہیں ۔ ۲۴؍ نومبر کے تشدد کے ایک ماہ بعد یہاں  کا دورہ کرنےوالے صحافیوں  ابھیک دیب اور کریتیکا پنت نے جو رپورٹ دی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنبھل میں  خوف کی کیسی حکمرانی ہے اور بطور سزا بلڈوزر استعمال نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے تاریخی حکم کے باوجود یہاں کس طرح  بلڈوزر دندناتے پھررہے ہیں۔ ابھیک اور کرتیکا لکھتے ہیں  کہ’’انتظامیہ نے فرقہ وارانہ ماحول کو گرم رکھنے کیلئے نیا طریقہ ڈھونڈ نکالاہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: نااُمیدی کے بیچ چند عدالتی فیصلوں نے اُمید جگائی

 سنبھل میں’’غیر قانونی تجاوزات‘‘ کے نام پر ہر روز کہیں  نہ کہیں  کچھ نہ کچھ منہدم کیا جا رہا ہے۔ گڑےمردے اکھاڑنے کیلئے کھدائی شروع کر دی گئی ہے۔ عین شاہی جامع مسجد کے سامنے ایک بڑے پولیس اسٹیشن کی تعمیر جنگی بنیادوں پر کی جارہے جس کا مقصد بادی النظر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں  کہ مقامی آبادی پر نکیل کسی جائے۔ ۲۴؍  نومبر کے بعد سے سنبھل میں  ہر جمعہ سنگینوں   کے سائے میں  ہورہاہے۔ اسی کا جائزہ لینے کیلئے دونوں  صحافی جمعہ کے دن ہی سنبھل پہنچے۔ ان کے مطابق انہوں  نے نماز جمعہ کیلئے جانے والے افراد سے گفتگو کی کوشش کی مگر ہر کسی نے نفی میں  ہلکا سا سر ہلاکر میڈیا سے گفتگو کرنےسے انکار کردیا۔ ان کی رپورٹ کے مطابق سیکوریٹی انتظامات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ نہ صرف یہ کہ مقامی افراد کیلئے میڈیا سے گفتگو ممنوع ہے، بلکہ نماز کے وقت مسجد کو محاصرہ میں لے لیا جاتا ہے اور پھرنماز کےبعد مصلیان کو مجرموں کی طرح ایک قطارسے باہر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں کوئی صحافی موجود نہیں ہوتا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نفرت کو ہوا دینے والی کمار وِشواس کی بیہودہ بیان بازی

سنبھل کی ز مینی حقیقت کا اندازہ گزشتہ دنوں شائع ہونےوالی ’’کارواں ‘‘ میگزین کی زمینی رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتاہے۔ ایک بڑا طبقہ یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ اتر پردیش میں  انتظامیہ سنبھل کے عوام کو مسجد کے سروے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ’’جرأت کی سزا‘‘ ہی نہیں دے رہا ہے بلکہ ریاست کے دیگر حصوں  میں  آباد اقلیتوں  کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’آواز اٹھانے کی جرأت ‘‘ نہ کرنا۔ 
۲۴؍ نومبر کے تشدد جس کی قیمت خود مسلمانوں نے چکائی کے بعد اچانک غیر قانونی تجاوزات کی جانچ شروع ہوگئی، بجلی چوری کی انکوائری کا آغاز ہوگیا اور جگہ جگہ کھدائی کے ذریعہ مندروں  کے باقیات کی تلاش شروع ہوگئی ہے۔ علاقے کے کئی گھروں  کی بجلی، بجلی چوری یا میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام عائد کرکے منقطع کردی گئی۔ ان میں  مقامی ایم پی ضیاء الرحمٰن برق بھی شامل ہیں۔ غیر قانونی تجاوزات کےنام پر اُن ۳؍ سیڑھیوں کو بھی توڑ دیاگیا جو ا ن کے گھر کے صدری دروازے سے لگ کر بہنے والے نالے کو عبور کرکے گھر میں  داخل ہونے کیلئے بنائی گئی تھیں۔ ابھیک دیب اور کریتیکا پنت کے مطابق مقامی افراد خود کو محصور محسوس کررہے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے نمائندہ کنوردیپ سنگھ کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کھدائی کے نام پر لوگوں  کے گھر خالی کرائے جارہے ہیں۔ ۵۶؍ سالہ اسکول ٹیچر جن کا نام ظاہر نہیں  کیاگیا، کے مطابق’’وہ ہرجگہ کھدائی کررہے ہیں، چیکنگ کے نام پر ہمارے گھروں   میں گھس رہے ہیں، ہمیں  ڈر ہے کہ سنبھل اپنی شناخت کھودیگا۔ ‘‘ اب تک ۵۰؍ سے زائد افراد گرفتار ہوچکے ہیں  مگر گرفتاریوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے جبکہ زائد از ۱۵؍ دن سے کھدائی جاری ہے۔ نتائج کچھ بھی نکلیں  مگر سنبھل میں  کھدائی کے نام پر ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم کودفن کیا جارہاہے،ا فسوس کہ ۲۰۲۷ء کے اسمبلی الیکشن سے قبل حالات میں سدھار کی امید نظر نہیں آتی۔ n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK