Updated: May 11, 2024, 8:49 PM IST
| Jerusalem
الجزیرہ کی صحافی شیریںابوعاقلہ کے قتل کی دوسری برسی کے موقع پر عر ب سینٹر ڈی سی میں فلسطین اسرائیل پروگرام کے ہیڈ یوسف منیر نے کہا کہ شیریں ابوعاقلہ کے قتل میں کم جوابدہی نے اسرائیل کیلئے غزہ میں مزید تشدد کے راستے ہموار کئے ہیں۔شیریں ابوعاقلہ کے اہل خانہ نے قانون سازوں اور عہدیداروں سے ملاقات اور اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کرکے امریکہ پر اس کی موت پر احتساب کیلئے دباؤ ڈالا ہے۔ الجزیرہ کی صحافی کی بھانجی نے کہا کہ ۲؍ سال گزر گئے ہم اب بھی انصاف سے محروم ہیں۔
الجزیرہ کی مرحوم صحافی شیریں ابوعاقلہ۔تصویر: ایکس
۲۱۴؍ دنوں میں اسرائیل نے غزہ میں ۱۴۲؍صحافیوں کو قتل کیا ہے۔ ہر ۳۶؍ گھنٹے میں ایک صحافی کو قتل کیا جاتا تھا۔بڑے پیمانے پر صحافیوں کے قتل نے جدید تاریخ میں فلسطینیوں کیلئے یہ جنگ مہلک ترین بنا دی ہے۔ تاہم، کارکنان کا کہنا ہے کہ معروف الجزیرہ کی صحافی شیرین ابوعاقلہ کا قتل ، جو امریکی شہری تھیں، اس حقیقت سےپردہ ہٹاتا ہےکہ اسرائیل بلاخوف جنگ سے پہلے سے صحافیوں کو بے دردی سے قتل کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ آج شیریں ابوعاقلہ کی دوسری برسی ہے۔ انہیں ۲۰۲۲ء میں مغربی کنارہ میں رپورٹنگ کےدوران اسرائیلی فوجیوں نے شوٹ کیا تھا۔اس ضمن میں عرب سینٹر ڈی سی میں فلسطین اسرائیل پروگرام کے ہیڈ یوسف منیر نے کہا کہ ’’شیریں ابوعاقلہ کے قتل میں کم جوابدہی نے اسرائیل کیلئے غزہ میں مزید تشدد کے راستے ہموار کئے ہیں۔انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’اسرائیل کا غزہ میں ریکارڈ نمبر صحافیوں کو قتل کرنا براہ راست شیریں ابوعاقلہ کے قتل میں جوابدہی کی کمی کے سبب ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ایک امریکی شہری کو ، جو عرب دنیا کے مشہور ترین صحافیوں میں شمار کی جاتی ہیں، آن کیمرہ قتل کر سکتے ہیں اور اس سے فرار اختیار کرلیتے ہیں تو یہ واضح پیغام ہے کہ کیا جائز ہے۔خیال رہے کہ شیریں ابوعاقلہ کے قتل کے فوراً بعد اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی نے غلط الزام عائد کیا تھا کہ فلسطینی نشانہ بازوں نے انہیں قتل کیا ہے۔ بعد ازیں آزادانہ رپورٹس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ یہ الزامات جھوٹے تھے۔
شریں ابو عاقلہ کے قتل کے خلاف بچے احتجاج کے دوران۔ تصویر: ایکس
شیریں ابوعاقلہ کے قتل میں امریکہ کا رویہ
خیال رہے کہ شیریں ابوعاقلہ کے قتل کے فوراً بعد امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے جوابدہی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے قتل کیلئے جو بھی ذمہ دار ہیں ان کے خلاف قانون کی مکمل حد تک مقدمہ چلایا جائے گا۔تاہم،امریکہ نے اس وقت اپنا بیان تبدیل کیا تھا جب اسرائیل نے قبول کیا تھا کہ ان کے فوجیوں نے الجزیرہ کی صحافی کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ تب امریکہ نے اس واردات کو حادثہ کی طرح برطرف کیا تھااور مجرمانہ کارروائی کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔ستمبر ۲۰۲۲ء کو دوبارہ امریکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ مجرمین کے خلاف مقدمہ چلایاجائے۔امریکی حکام نے کہا تھا کہ جوابدہی صرف تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل اپنے طرزعمل میں تبدیلی لائےجسے اسرائیلی وزراء نے ماننے سے انکار کیا تھا۔
بعد ازیں امریکہ نے صحافی کے قتل کے معاملے میں مجرمانہ کارروائی کے مطالبات کو بھی ٹھکرایا تھااور کہا تھا کہ ’’اسرائیل کے پاس ایسے ادارے ہیں جو اس طرح کے کیس حل کرنے کے اہل ہیں۔‘‘ فلسطینی حقوق انسانی کے وکیلوں کے مطابق اسرائیل کبھی کبھار ہی اپنے فوجیوں کے خلاف ان کے مظالم کیلئے مقدمہ چلاتا ہے اور اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خود ہی اس کیس کی تفتیش کرے گا۔ یوسف منیر کے مطابق ’’بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کیلئے صحافیوں کو قتل کرنے کیلئے راستے ہموار کر دیئے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایس ای سی چیمپئن شپ ۲۰۲۴ء: ہندوستانی کھلاڑی پرویز خان فائنل میں
۲؍ سال گزر گئے لیکن ہمیں اب تک انصاف نہیں ملا: شریں ابوعاقلہ کی بھانجی
ابوعاقلہ کے اہل خانہ نے قانون سازوں اور عہدیداروں سے ملاقات کرکے اور اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کرکے امریکہ پر اس کی موت پر احتساب کیلئے دباؤ ڈالا ہے۔مقتول صحافی کی بھانجی لینا ابو اکلیح نے واشنگٹن ڈی سی کی تقریب میں کہا کہ ’’گزشتہ دو برسوں سے یوں لگتا ہے وقت کافی تیزی سے گزرا لیکن بدقسمتی سے ۲؍ سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں اب تک انصاف نہیں ملا۔ ہمارے پاس اب بھی احتساب نہیں ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’امریکی انتظامیہ نے ہمارے خاندان کو ناکام کر دیا ہے۔ ایک امریکی شہری ، صحافی اور ایک خاتون کو ناکام کیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے فلسطین کی رکنیت کی قرارداد منظور کرلی
۲۰۲۲ء کے آخر میں، کئی خبروںسے اشارہ ملا تھا کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے اس کیس کی تحقیقات شروع کی ہے لیکن محکمہ انصاف نے، جو بیورو کی نگرانی کرتا ہے، اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیاتھا۔سی پی جے پروگرام کے ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ صحافیوں کے قتل میں اسرائیل کے دیرینہ استثنیٰ کو توڑنے کا وقت ہے جوغزہ میں اسرائیلی جنگ میں کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ایف بی آئی کو اپنی تحقیقات کے اختتام کیلئے ایک ٹائم لائن کا انکشاف کرنے کی ضرورت ہے اور اسرائیل کو ایف بی آئی کی تحقیقات اور آئندہ آئی سی سی کی کسی بھی تحقیقات میں تعاون کرنا چاہئے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: افغانستان: سیلابی صورتحال، ۳۰۰؍ افراد ہلاک، سیکڑوں لاپتہ
گزشتہ سال شیریں ابوعاقلہ کے قتل کی پہلی برسی پر سی پی جے نے رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیاتھا کہ کیسے اسرائیلی فوج نے دو دہائیوں قبل۲۰؍ صحافیوں کو قتل کیا تھا۔تاہم، ان اموات کیلئے بھی کسی پر الزام نہیں عائد کیا گیا یا کسی کو بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیاتھا۔