Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ہندوازم کو ہندوتوا سے بچائیں: نئی کتاب میں ارون شوری کا جراتمندانہ مطالبہ

Updated: February 28, 2025, 12:17 PM IST | New Delhi

ارون شوری نے جو سابق بی جے پی وزیر ہیں اپنی نئی کتاب میں ساورکر پر سخت تنقید کی، ساتھ ہی یہ کتاب موجودہ حکومت کے بیان کو چیلنج کرتی ہے، اور گاندھی کی مستقل اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

 سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے اپنی نئی کتاب’’ دی نیو آئیکون:ساورکر اینڈ دی فیکٹ‘‘ میں ونایک دامودر ساورکر کی زندگی اور نظریے پر تنقیدی نظر ڈالی ہے، جنہیں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کےذریعے ایک قوم پرست ہیرو کے طور پر زندہ کیا جا رہا ہے۔۳۱؍ جنوری کو جاری ہونے والی اس کتاب نے ایک شدید سیاسی بحث چھیڑ دی ہے، جس میں شوری نے بی جے پی پر مہاتما گاندھی کی میراث کو دبانے، جبکہ ساورکر کےتفرقہ انگیز انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: دہلی: مہاشیو راتری پر ساؤتھ ایشین یونیورسٹی کیمپس میں نان ویج کھانے پر اے بی وی پی کا طلبہ پر حملہ

۸۴؍سالہ مصنف، جو اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی کی این ڈی اے حکومت میں سابق وزیر رہ چکے ہیں، نے ساورکر کی تحریروں، برطانوی آرکائیوز اور معاصر ریکارڈکا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ساورکر کے کردار کے بارے میں پھیلائے گئے مفروضے کوبے نقاب کیا ہے۔ شوری کی کتاب میں ساورکر کے برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواستوں ، تشدد کی وکالت، اور ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں ان کے متنازعہ موقف کے بارے میں حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ ساورکر کےہندو راشٹر (ریاست) کےنظریےپر عمل کیا گیا، تویہ ہندوستان کو ایک’’ مکار اور دھوکے باز زعفرانی ریاست ‘‘میں تبدیل کر دے گا۔

یہ بھی پڑھئے: اندر جیت ساونت کو دھمکی دینے والا بی جے پی کا قریبی ہے ؟

ارون شوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ساورکر کے خیالات کو آج اس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے جیسے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ حکومت گاندھی کو مٹانےکیلئے ان کا استعمال کر رہی ہے، جن کانظریہ ہندوتوا کے حامیوں کو پریشان کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ آخری صفحے پر، میں نے اپنی دلیل پیش کی ہےکہ ہندوازم کو ہندوتوا سے بچائیں۔‘‘شوری کی کتاب، جس میں تقریباً۶۰۰؍ حوالہ جات شامل ہیں،ساورکر سے وابستہ متعدد نام نہاد تاریخی واقعات کو غلط، اور بے بنیاد ثابت کرتی ہے۔کتاب میں گاندھی کے قتل کی سازش میں ساورکر کے ملوث ہونے کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔شوری لکھتے ہیں، گاندھی قتل کیس میں ایک سرکاری گواہ نے گواہی دی کہ گوڈسے اور آپٹے نے اس قتل کو انجام دینے سے پہلے ساورکر کا آشیرواد حاصل کیا تھا۔
شوری کی کتاب میں سب سے زیادہ حیرت کرنے والا انکشاف ساورکر کی برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواستوں کی سیریز ہے، جس میں انہوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے ساتھ وفاداری کا وعدہ کیا تھا۔اسی طرح کے ایک معافی نامہ میں ساورکر نےلکھا کہ ’’ میں آپ کے کام آؤں گا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا شکر گزار رہوں گا، آپ کیلئے سیاسی طور پر کوئی بھی اتنا مفید نہیں ہو گا جتنا میں ہوں۔‘‘اس کے علاوہ شوری نے ساورکر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نظریئے پر بھی تنقید کی اور اسے ہندوستان کو منقسم کرنے کی انگریزوں کی سازش میں مددگار قرار دیا۔

یہ بھی پڑھئے: لو جہاد کی نفرت انگیز مہم کے خوف سے جھارکھنڈ کے جوڑے نے کیرالا میں پناہ لی

اس کتاب کے خلاف ساورکر کے حامیوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے، جبکہ شوری اپنے بات پر قائم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحریر سخت تحقیق پر مبنی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساورکر کا نظریہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو کمزور کر دےگا۔ شوری نے ساورکر کی سیاسی ناکامیوں کو بھی اجاگر کیا ہے، خاص طور پر۱۹۳۷ء کے انتخابات میں جہاں ۱۳۴۰؍ نشستوں میں سے ہندو مہا سبھا نے محض ۳؍ نشستیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ کانگریس نے ۷؍ صوبوں میں حکومت بنائی تھی۔ یہ شکست ساورکر کے دل میں گاندھی کیلئے نفرت پیدا کرنے کا باعث بنی۔ساورکر کا ماننا تھا کہ گاندھی نے ہندو قوم پرست لیڈر کے طور پر اس کا جائز مقام چھین لیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK