Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

بنگلہ دیش: گارمینٹ فیکٹری میں تکنیکی آلات کی تنصیب، مزدوروں کی تخفیف کا سبب

Updated: March 15, 2025, 9:54 PM IST | Washington

بنگلہ دیش کی گارمینٹ فیکٹریوں میں مشینی آلات کی تنصیب، اور نگرانی کی جارہی ہے۔صنعت کار مقابلے کے دور اور بڑھتی ہوئی مزدوری کے اخراجات کو کم کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں۔جس کے سبب خاتون ملازمین کو ملازمت سے نکالا جا رہا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بنگلہ دیش میں گارمینٹ فیکٹریوں کے مالکان مسابقت کے دور میں اخراجات میں کمی کے مختلف راستے اپنا رہے ہیں، تاکہ مزدوروں کی تعداد کم کی جا سکے اس کے علاوہ ملازمین کے کام کی نگرانی اور اس کا حساب رکھنے کیلئے بھی آلات نصب کئے جا رہے ہیں، جو فی گھنٹہ مزدوروں کے کام کا حساب رکھتے ہیں۔ ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے ریسرچ ڈائریکٹر خوندکر گولام معظم نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا، کہ ’’بنگلہ دیش جیسے ملک میں جہاں فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے، کارکنوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے کارکن زیادہ مانگ رہے ہیں۔ کم از کم کچھ حد تک، کارکنوں کی جگہ مشینوں کو استعمال کرنے کا رجحان ہے۔‘‘
فیکٹری مالکان اور ان کی صنعتی ایسوسی ایشن نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ اسمارٹ ٹیکنالوجی نے پیداوار اور مزدوری کو بہتر کیا ہے، اور بنگلہ دیش کی اعلیٰ فیکٹریوں کو عالمی سطح پر زیادہ مسابقتی بنا دیا ہے۔ ٹیم گروپ، ایک بنگلہ دیشی کانگلومریٹ جو ایچ اینڈ ایم اور گیس جیسے برانڈز کو سپلائی کرتا ہے، کی فیکٹریوں میں نڈل اور سیمی آٹومیٹک مشینیں نصب کرنے کے بعد، پیداوار میں۱۰؍ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، اس کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ رقیب کے مطابق۔ مشینیں بٹن یا جیب لگانے جیسے کام کم سے کم انسانی محنت کے ساتھ کر سکتی ہیں۔انہوں نے کہا، کہ ’’آٹومیٹڈ سسٹم رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کرتا ہے، جس سے ہم ایک ہی لیبر فورس کو بہتر پیداوار کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسے جیسے آٹومیشن کی وجہ سے میری پیداواری شرح بہتر ہوتی ہے، میں بہتر تنخواہیں ادا کر سکتا ہوں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیل کا غزہ کے طبی نظام پر حملہ اور اسکی تباہی منظم، نسل کشی کے مترادف: اقوام متحدہ

لیکن کارکنوں، یونین نمائندوں، اور اسکالرز نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ تنخواہوں میں اضافہ صرف کارکنوں کے احتجاج کی وجہ سے ہوا ہے، نہ کہ اسمارٹ فیکٹریوں کی وجہ سے۔ یونین لیڈروں کے مطابق، آٹومیشن نے نوکریوں کا نقصان کیا ہے، خاص طور پر خواتین کیلئے۔۲۰۲۳ء میں گارمنٹ ورکرز میں سے صرف ۵۷؍ فیصدخواتین تھیں، جو۱۹۹۱ء میں ۸۵؍ فیصد تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سیمی آٹومیٹک مشینوں کیلئے کارکنوں کو مشینوں کی رفتار کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ٹریڈ گروپ بنگلہ دیش گارمنٹ اینڈ انڈسٹریل ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل بابل اختر نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا، کہ ’’ایسے آلات کا استعمال مشین کی آٹومیٹڈ رفتار اور انسانی صلاحیت کے درمیان عدم توازن پیدا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کارکنوں کوآٹومیشن کا مقابلہ نہ کر پانے کی وجہ سے ملازمت ترک کرنی پڑ رہی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہندوستانی اسکالر رنجنی سری نواسن کا امریکہ سے ازخود جلاوطن

ویتنام اور کمبوڈیا جیسے دیگر گارمنٹ تیار کرنے والے ممالک سے بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی کے ساتھ، بنگلہ دیش کی اعلیٰ فیکٹریاں آٹومیشن کو بڑھا رہی ہیں۔ شمی ٹیکنالوجیز، ایک صنعتی ایڈٹیک کمپنی جو گارمنٹ ورکرکو ہنر مند بناتی ہے، کی جانب سے ڈھاکہ کی ۲۰؍ فیکٹریوں کے۲۰۲۳ء کے سروے میں پایا گیا کہ ان میں سے۸۰؍ فیصد اگلے دو سالوں میں سیمی آٹومیٹک مشینیں خریدنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ہر مشین ایک سے چھ کارکنوں کی جگہ لے سکتی ہے، اور سروے کی گئی سب سے بڑی فیکٹریوں نے اپنی لیبر فورس میں ۲۲؍ فیصد تخفیف کی توقع ظاہر کی۔ کارکنوں اور فیکٹری آپریٹرز نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ نوکریوں میں کمی پہلے ہی ہو رہی ہے۔فیکٹری کے مینیجر محمود الرحمان نے ریسٹ آف ورلڈ کو بتایا کہ آٹومیشن کے ساتھ مینوفیکچرنگ لائنیں۵۸؍ مشینوں سے کم ہو کر۴۸؍ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کارکن ایک وقت میں تین مشینوں کو چلاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ملک میں تیز رفتار انٹرنیٹ کیلئے ایئرٹیل۔اسٹارلنک معاہدے کے ایک دن بعد اسپیس ایکس معاہدہ

سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے معظم نے کہا، کہ ’’مرد کارکنوں کو فیکٹری سے باہر اپنے فارغ وقت یاچھٹی  میں تربیت حاصل کرنے کا بہتر موقع ملتا ہے۔ جبکہ خواتین کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے تاکہ کھانا پکا سکیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ ہم آٹومیشن کے امتیازی اثر کو بہت واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘‘عالمی برانڈز کو اسمارٹ فیکٹریاں پسند ہیں، یہ بات ارمی گروپ کے ڈپٹی جنرل منیجر انفارمیشن ٹیکنالوجی کاظی احتشام شاہد نے کہی، جس کے خریداروں میں ایچ اینڈ ایم، یونیقلو، اور مارکس اینڈ سپینسر شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’خریداروں (فیشن برانڈز) کی طرف سے فراہم کی جانے والی شرح کافی نہیں ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہمیں اس کے اندر رہتے ہوئے انتظام کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے ساتھ افرادی قوت کو کم کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمارے پاس مشین کاری کی طرف بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
حکومتی افسر انور حسین، جو بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے منتظم بھی ہیں، نے کہا کہ خودکار کاری سے کارکنوں کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔’’ہم ٹیکنالوجی کا استعمال چاہتے ہیں، لیکن یہ کارکنوں کیلئے دوستانہ ہونا چاہیے، استحصالی نہیں،‘‘  اختر نے کہا کہ ’’برانڈیا فیکٹریاں جو اس کو ہونے دے رہی ہیں، اس حقیقت کو جانتے ہوئے، ان کے کاروباری ماڈل پر سوال اٹھایا جانا چاہیے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK