بی بی سی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق فیس بک نے اسرائیل غزہ جنگ کے دوران فلسطینی خبر رساں اداروں کی خبروں کو سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت کو بہت حد تک محدود کیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 19, 2024, 6:08 PM IST | London
بی بی سی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق فیس بک نے اسرائیل غزہ جنگ کے دوران فلسطینی خبر رساں اداروں کی خبروں کو سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت کو بہت حد تک محدود کیا ہے۔
بی بی سی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق فیس بک نے اسرائیل غزہ جنگ کے دوران فلسطینی خبر رساں اداروں کی خبروں کو سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت کو بہت حد تک محدود کیا ہے۔ فیس بک کے ڈیٹا کے ایک جامع تجزیے میں بی بی سی کی ٹیم کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں موجود خبررساں اداروں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے آڈئینس انگیجمنٹ کے اعداد و شمار میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ بی بی سی عربی ٹیم کی جانب سے کی گئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے۲۰؍ نیوز رومز نے۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو حماس کے حملوں کے بعد سامعین کی مصروفیت میں ۷۷؍فیصد کمی کی اطلاع دی ہے۔ بی بی سی کو لیک ہونے والی دستاویزات کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ انسٹاگرام نے بھی اکتوبر ۲۰۲۳ءکے بعد فلسطینی صارفین کے تبصروں میں اپنی ماڈریشن یعنی نگرانی کو بڑھا دیا تھا۔ خیال رہے کہ فیس بک کی طرح انسٹا گرام بھی میٹا کی ملکیت ہے۔ فیس بک اور اور انسٹا گرام کی مالک کمپنی میٹا کا کہنا ہے کہ دانستہ طور پر مخصوص آوازوں کو دبانے کی با ت مکمل طور پر غلط ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بحر ہند کے ممالک تباہ کن سونامی کی ۲۰؍ ویں برسی منائیں گے
فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا کو اس سے قبل فلسطینی مواد پر ’’شیڈو بین‘‘ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ سمیت ناقدین کا دعویٰ ہے کہ پلیٹ فارم آن لائن سرگرمیوں کو منصفانہ طور پر اعتدال میں لانے میں ناکام ہے۔ ۲۰۲۱ء میں کمپنی کی طرف سے کمیشن کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ ماڈریٹرز کے درمیان عربی بولنے کی مہارت کی کمی کی وجہ سے تھا۔ الفاظ اور جملوں کو جارحانہ یا پرتشدد چیزوں سے تعبیر کیا جا رہا تھا، جبکہ وہ حقیقت میں بے ضرر تھے۔ ان دعوؤں کو جانچنے کیلئے بی بی سی نے عربی خبر رساں اداروں کے۳۰؍ نمایاں فیس بک صفحات کا تجزیہ کیا جن میں ا سکائی نیوز عربیہ اور الجزیرہ جیسے نیوز پلیٹفارمز شامل تھے لیکن تجزیہ کے مطابق ان صفحات کی انگیجمنٹ میں تقریباً۱۰۰؍ فیصد کا اوسط اضافہ دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: پاکستان:عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر ٹرسٹ معاملے میں فیصلہ محفوظ
بی بی سی کی تحقیق کا جواب دیتے ہوئے میٹا نے نشاندہی کی کہ انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں کئے گئے ’’عارضی پراڈکٹ اور پالیسی اقدامات‘‘ کو صیغۂ راز میں نہیں رکھا۔ میٹا نے کہا کہ اسے آزادئ اظہار کے حق کے متوازن استعمال کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہا کیونکہ حماس کو امریکہ کی طرف سے منظور شدہ اور میٹا کی اپنی پالیسیوں کے تحت ایک خطرناک تنظیم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ میٹا نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے بارے میں خصوصی طور پر پوسٹ کرنے والے صفحات پر انگیجمنٹ کے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ میٹا کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم غلطیاں کرتے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نکالنا کہ ہم جان بوجھ کر کسی خاص آواز کو دباتے ہیں واضح طور پر غلط ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں جنگ بندی کی اُمیدوں کے بیچ حملوں میں شدت
بی بی سی نے میٹا کے پانچ سابق اور موجودہ ملازمین سے اس بابت بات کی ہے کہ ان کی کمپنی کی پالیسیوں کا فلسطینی صارفین پر کیا اثر پڑا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شخص نے کچھ لیکڈ دستاویزات شیئر کئے جن میں انسٹاگرام کے ایلگورتھم میں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں فلسطینیوں کی جانب سے انسٹاگرام پوسٹس پر کمنٹس کی نگرانی سخت کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے حملے کے ایک ہفتے کے اندر ضابطے کو تبدیل کر دیا گیا جس سے یہ فلسطینی عوام کے خلاف زیادہ جارحانہ ہو گیا۔ اندرونی پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انجینئر نے اس نئے حکم کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سےفلسطینی صارفین کے خلاف نظام میں ایک نیا تعصب پیدا ہو سکتا ہے۔ میٹا نے تصدیق کی ہے کہ اس نے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کیلئے فلسطینی علاقوں سے شائع ہونے والے ’’نفرت انگیز مواد میں اضافے‘ ‘کا جواب دینا ضروری تھا۔ اس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز میں جو پالیسی تبدیلیاں کی گئی تھیں وہ اب واپس لے لی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسا کب کیا گیا ہے۔