Updated: August 17, 2024, 8:31 PM IST
| London
بلیو اسٹیٹ کنسلٹنسی کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے مسلمان اپنے دیگر ہم وطنوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ فیاض ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فلاحی کاموں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کیلئے بھی مسلمان دیگر عوام سے دوگنا آگے آئے ہیں۔ یہ تحقیق مسلمانوں کے مثبت رویہ اور سماج کے تئیں ان کی فراخدلی کی غماز ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے برطانیہ میں جاری مسلمان اور مسلمان تارکین وطن کے خلاف پُرتشدد مظاہروں کے پیش نظر یہ تحقیق شائع کی گئی ہے:
اسٹیٹ کنسلٹنسی کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے مسلمان اپنے دیگر ہم وطنوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ فیاض واقع ہوئے ہیں۔ کنسلٹنسی نے ۷۵۰۰۰؍ سے ۱؍ لاکھ یورو کمانے والے گروپ کے درمیان موازنہ کیا ، جس کے مطابق جہاں برطانیہ کی دوسری آبادی ۱۶۵؍ یورو عطیہ دیتی ہے وہیں اسی زمرہ کے مسلمان ۱۲؍ مہینوں میں ۷۰۸؍ یورو کا عطیہ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ عوامی تقریب جیسے میراتھن دوڑ وغیرہ کیلئے چندہ اکٹھا کرنے میں بھی برطانوی مسلمان اپنے برطانوی ہم وطنوں سے دوگنا آگے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کے مقرر کردہ سفیروں کوواپس بلانا شروع کردیا
مسلم چیریٹی فورم کے چیف ایگزیکیٹو فاتی اتانی نے کہا کہ انہیں اس تحقیق پر حیرت نہیں ہے ، البتہ انہیں برطانوی مسلمانوں کی اس فیاضی کی رپورٹ پڑھ کر دلی خوشی ہوئی۔جہاں تک زکوٰۃ کی بات ہے جو اسلام کے بنیادی عقیدے میں شامل ہے،۶۱؍ فیصد برطانوی اسلامی رفاہی تنظیم کو ادا کرتے ہیں جبکہ ۱۴؍ فیصد غیر مذہبی مدوں میں خرچ کرتے ہیں۔حالانکہ ہر دو میں ایک مسلمان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ کو غیر مذہبی تنظیموں کو بھی ادا کر سکتے ہیں۔مسلمانوں کی تقریباً نصف آبادی نے کہا کہ وہ اپنی زکوٰۃکو کئی جگہ ادا کرتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ ایسے کئی رفاہی ادارے ہیں جو مختلف افراد سے زکوٰۃ کی رقم حاصل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کے انخلاء کے حکم سے ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار فلسطینی متاثر ہوئے ہیں: اقوام متحدہ
تقریباً ۷۳؍ فیصد برطانوی ایسے ہیں جنہوں نے سال بھر میں یا تو اپنی زکوٰۃ کے برابر رقم عطیہ کی یا اس سے زیادہ۔ریسرچ میں یہ بھی پایا گیا کہ دیگر برطانوی شہریوں کی ۱۱؍ فیصد نے رضاکارانہ خدمات کیلئے خود کو پیش کیا جبکہ اسی طرح کی خدمات کیلئے ۱۷؍ فیصد مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا ۔جہاں ۷؍ فیصدی دیگر برطانوی شہری عوامی تنظیموں سے وابسطہ ہیں وہیں ۱۳؍ فیصد مسلمان اسی طرح کی سرگرمیوں سے وابسطہ ہیں۔
مسلمانوں کا بین الاقوامی عطیات میں بڑا حصہ ہے ایک جانب برطانیہ کا اوسط ۴۸؍ فیصد ہے، دوسری جانب ۸۵؍ فیصد مسلمان گزشتہ بارہ مہینوں میں عطیات دے چکے ہیں۔ہر چار میں سے تین برطانوی نے بتایا کہ وہ غزہ جنگ کے متاثرین کی انفرادی طور پر مدد کر چکا ہے۔ ساتھ ہی غذائی بینک اور رفاہی دکانوں میں بھی عام لوگوں کے مقابلے میں مسلمان کہیں آگے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: رانچی: نپورشرما کے خلاف احتجاج کے معاملہ میں گرفتار ۳؍ افراد ضمانت پر رہا
اتانی نے کہا کہ ’’دوسروں کی مدد کرنا اسلام کے ستون میں ایک سے ایک ہے، جو صاحب حیثیت ہے، اور از خود عطیہ کرنا قابل ستائش ہے۔ہر سال رمضان میں مسلم معاشرہ دسیوں لاکھوں یورو برطانیہ اور بیرون ملک عطیہ کرتا ہے۔ برطانوی مسلمانوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی شناخت کریں اور اپنے زکوٰۃ کی اہمیت کو پہچانیں اور اس کی اثر انگیزی کا مشاہدہ کریں۔ مسلم چیریٹی فورم عطیہ دہندگان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنی رقم کو بہتر طور پر خرچ کریں تاکہ ضرورت مندوں کو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ جو تنظیمیں زکوٰۃ وصول کرتی ہیں انہیں بھی اپنی کا کردگی میں شفافیت برقرار رکھنیچاہئے تاکہ عطیہ دہندگان اور وصول کنندگان کے مابین اعتماد قائم رہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بابا رام گیری کی زہرافشانی کے خلاف کئی مقامات پر احتجاج
بلیو اسٹیٹ کی سینئر مدبر جاسمین میاں نے کہا کہ ’’ یہ سروےگزشتہ سال کے ہمارے مطالعے پر مبنی ہے جس میں ہم نے پایا تھا کہ برطانوی مسلمان سماج کے دیگر طبقوں سے زیادہ فراخ دل ہیں، لہٰذا ہم نے اس بارے میں مزید گہرائی سے مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا،اور اس تحقیق کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہم نے کل ۳۰۰۰؍ افراد کا سروے کیا جن میں ۱۰۰۰؍ مسلمان تھے۔یہ نتائج برطانیہ کے رفاہی اداروں کی سرگرمیوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح تمام سماج کی شمولیت سے بنیادی خدمات کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ساتھ ہی یہ سروےسماج کے تئیں برطانوی مسلمانوں کے مثبت رویہ اور فراخدلی کی بھی عکاسی کر تا ہے۔‘‘