Updated: January 13, 2025, 10:14 PM IST
| New Delhi
دہلی ہائی کورٹ نے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی برقیاتی آلات واپس کرنے کی درخواست مسترد کی ہے اور انہیں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کیس ۲۰۲۲ء میں محمد زبیر کے ایک ٹویٹ سے متعلقہ ہے جس میں ان پر ہندو طبقے کے جذبات مجروح کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر۔ تصویر: آئی این این
دہلی ہائی کورٹ نے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی وہ درخواست مسترد کی ہے جس میں انہوں نے ۲۰۲۲ء میں دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ضبط شدہ برقیاتی آلات واپس کرنے کی اپیل کی تھی۔ جسٹس سوارنا کانتا شرما نے محمد زبیر سے کہا ہے کہ ’’وہ ٹرائل کورٹ سے رجوع کریں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: گزشتہ ۵؍ دنوں میں تقریباً ۷۰؍ فلسطینی بچے جاں بحق
۲۰۲۲ء کا کیس
یاد رہے کہ یہ کیس ۲۰۱۸ء کی سوشل میڈیا پوسٹ سے متعلقہ ہے جس میں زبیر نے ۱۹۸۳ء کی ایک ہندی فلم کی ایک تصویر شیئرکی تھی جس کے سائن بورڈ کو ’’ہنی مون ہوٹل‘‘ سے ’’ہنومان ہوٹل‘‘ کیا گیا تھا۔ ایک اجنبی سوشل میڈیا صارف نے ایکس (جو اس وقت ٹویٹر تھا)، پر ٹویٹ کیا تھا کہ ’’اس ٹویٹ نے ہندو طبقے کے مذہبی جذبات مجروح کئے ہیں۔‘‘جھوٹی خبروں کوبے نقاب کرنے والے محمد زبیر کو جون ۲۰۲۲ء میں دہلی پولیس کی سائبر یونٹ کے ذریعے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزامات پر حراست میں لیا گیاتھا۔۱۵؍جولائی ۲۰۲۲ء کو محمد زبیر کو دہلی کورٹ کی جانب سے ضمانت دے دی گئی تھی۔ دہلی کورٹ نے کہا تھا کہ ’’جمہوری سماج میں اظہار رائے حقیقی بنیاد ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیل، غزہ سے فوج کے انخلاء کیلئے تیار: رپورٹ
پولیس کا جھوٹا دعویٰ
دہلی پولیس نے دعویٰ کیاتھا کہ ’’زبیر نے انہیں بتایاتھا کہ ۲۰۱۸ء میں شیئر کی گئی پوسٹ کیلئے استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور موبائل فون بنگلور میں ان کے گھر پر ہے۔ پولیس نے ۳۰؍ جون ۲۰۲۲ء کو ان کے گھر چھاپہ ماراتھا اور ۲؍ آلات بازیافت کئے تھے جن میں ۲؍ انوئس اور ۲؍ہارڈ ڈسک شامل تھیں۔زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے نہ ہی تفتیشی اور نہ ہی کسی پولیس حکام کو کسی طرح کا بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ان کا وہ موبائل فون ضبط کر لیا گیا جو انہوں نے پوسٹ شیئر کرنے کیلئے استعمال کیا تھا۔‘‘
زبیر نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ ’’مزید برآں کہ ٹویٹ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسےاینڈروئیڈ موبائل فون کے ذریعے شیئر کیا گیا ہے اسی لئے اس میں لیپ ٹاپ کا کوئی استعمال نہیں ہوا۔میری رہائش گاہ سے مذکورہ تلاشی اور ڈیوائس ضبط کرناناجائز ہےکیونکہ تحقیقات میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘‘انہوں نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور مطالبہ کیا کہ ’’ایف آئی آر میں مذکورہ آلات کے علاوہ ان کے تمام آلات واپس کر دیئے جائیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: شمالی غزہ میں اسرائیلی حملوں میں زائد از ۵ ہزار فلسطینی جاں بحق، لاپتہ: حکام
عدالت کا کیا کہنا ہے
پیر کو عدالت کے جج شرما نے کہا کہ ’’یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے آلات اور کاغذات ، جنہیں پولیس نے مبینہ طور پر ضبط کیا ہے، اس کیس میں لگائے جانے والے الزامات سے باہر ہیں۔‘‘عدالت نے نشاندہی کی کہ ’’سماعت کے دوران ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ درخواست کنندہ کے وکیل جس ڈیوائس کی بات کر رہے ہیں وہ درخواست کنندہ کا موبائل فون ہے۔ اس معاملے میں درخواست کنندہ متعلقہ علاقے کے مجسٹریٹ کے سامنے مناسب درخواست دے سکتا ہے جو قانون کے مطابق اس سے نمٹے۔‘‘