Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

مشرقی یروشلم: ممتاز فلسطینی کتابوں کی دکان پر اسرائیل کا چھاپہ، فلسطینی ثقافت کو مٹانے کی کوشش

Updated: February 12, 2025, 6:33 PM IST | Inquilab News Network | Jerusalem

ایجوکیشنل بک شاپ کے مالکان محمود اور احمد کو منگل کی صبح رہائی مل گئی لیکن انہیں اگلے ۵ دنوں تک نظربند رکھا جائے گا۔ ان پر اگلے ۲۰ دنوں کیلئے کتابوں کی دکان یا اس کی کسی بھی شاخ میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

Educational Book Shop. Photo: INN
ایجوکیشنل بک شاپ۔ تصویر: آئی این این

اسرائیلی پولیس نے یروشلم میں مقیم فلسطینی منا خاندان کے زیر انتظام کتابوں کی ۴۰ سال پرانی دکان "ایجوکیشنل بک شاپ" پر چھاپہ مارا اور مالکان محمود منا اور ان کے بھتیجے احمد منا کو گرفتار کر لیا۔ اسرائیلی پولیس نے کتابوں کی دکان کی عربی اور انگریزی، دونوں شاخوں پر چھاپہ مارا۔ اس دکان کو قابض افواج کے خلاف فلسطینی ثقافتی مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 

اتوار کو کی گئی اس کارروائی میں پولیس نے دکان سے درجنوں کتابیں ضبط کرلیں جن میں بچوں کی ایک رنگین کتاب بعنوان "فرام دی ریور ٹو دی سی" (ندی سے سمندر تک) بھی شامل ہے۔ اسرائیلی حکام نے اسے "دہشت گردی پر اکسانے والی کتاب" قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تصاویر میں ایجوکیشنل بک شاپ میں کتابیں فرش پر بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جہاں شیلف میں ایک زمانے میں اسرائیل پر تنقید کرنے والے ماہرین ایڈورڈ سید، ایلان پیپی اور ایوی شلائم کی تخلیقات رکھی گئی تھیں، وہاں اب بے ترتیبی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ اور سوڈان میں بھکمری جبکہ ۴۸۹؍ملین ڈالر کی امریکی امدادی خوراک سڑنے کے قریب

اسرائیل کی خفیہ پولیس نے ۹ فروری ۲۰۲۵ کو سہ پہر ۳ بجے کے قریب کتابوں کی دکان سے محمود اور احمد سے رابطہ کیا، انہیں گرفتار کیا اور ہتھکڑیاں لگا کر جیل بھیج دیا۔ منا کے اہل خانہ نے بتایا کہ پولیس نے وارننگ دیئے بغیر صلاح الدین اسٹریٹ پر واقع ۲ دکانوں پر چھاپہ مارا اور گوگل ٹرانسلیٹ کا استعمال کرتے ہوئے عنوان میں "فلسطین" یا "فلسطینی شناخت" والی کتابیں اور سرخ، سبز اور سفید فلسطینی پرچموں کی نمائش کرنے والی ہر اشاعت کو ہٹا دیا۔ 

محمود اور احمد کو منگل کی صبح رہائی تک مغربی یروشلم کی ایک تفتیشی سہولت اور حراستی مرکز روسی کمپاؤنڈ میں رکھا گیا۔ اسرائیلی پولیس کی درخواست کے مطابق، انہیں اگلے ۵ دنوں تک گھر میں نظربند رکھا جائے گا اور ۲۰ دن تک انہیں کتابوں کی دکان یا اس کی کسی بھی چھوٹی شاخ میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ سماعت کے دوران، پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ افسران نے منا کی کتابوں کی دکان میں ۸ ایسی کتابوں کی نشاندہی کی ہے جو اشتعال انگیزی کو فروغ دیتی ہیں۔ کتاب فروشوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل ناصر عودیہ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ محمود اور احمد کے خلاف ابتدائی طور پر `دہشت گردی کو بھڑکانے اور اس کی حمایت کرنے کا الزام` لگایا گیا تھا لیکن ان سے پوچھ تاچھ کے دوران اسے `امن عامہ کو بگاڑنے` کے الزام میں تبدیل کر دیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارے میں اسرائیلی آپریشن کے سبب ۴۰؍ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں

اسرائیلی کارروائی پر چوطرفہ تنقید 

عالمی سطح پر ادیبوں، شاعروں، ثقافتی شخصیات، اداروں اور کتب فروشوں نے فلسطینیوں کے نقطہ نظر کے متعلق انگریزی میں کتابیں فروخت کرنے والی پہلی کتابوں کی دکان پر چھاپہ اور اس کے فلسطینی مالکان کی گرفتاری کی مذمت کی۔ کئی افراد، ایجوکیشنل بک شاپ کے مالکان سے اظہار یکجہتی کیلئے دکان پر جمع ہوئے۔ فلسطینی پبلشرز نے اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ منا خاندان اور گزشتہ ۴۰ برسوں سے فلسطینی ثقافت اور عربی میں کتابوں کو فروغ دینے والے ایجوکیشنل بک شاپ پر حملہ، اسرائیل کے فلسطینی ثقافت کو مٹانے اور فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔

پین انٹرنیشنل نے فلسطینی کتب فروشوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ فلسطینی آوازوں کے خلاف جبر کی جاری مہم کا حصہ ہے۔ یروشلم میں فرانس کے قونصل جنرل نکولس کاسیانائیڈز نے عدالتی سماعت میں شرکت کی اور اسرائیلی پولیس کی کارروائی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھاپہ اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہے۔ یہ دباؤ اب ختم ہونا چاہئے۔

سابق سینئر فیلو اور ایم ای آئی کے فلسطین اور اسرائیل۔فلسطینی امور کے پروگرام کے ڈائریکٹر خالد الگندی نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں امریکی اور اسرائیلی لیڈران کھل کر ایک قابل عمل پالیسی متبادل کے طور پر فلسطینیوں کی نسلی صفائی پر بات کر سکتے ہیں لیکن یروشلم کی کتابوں کی دکان میں ایک رنگین کتاب کو دہشت گردی اور اشتعال انگیزی کوفروغ دینے والی چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیل نے جنین کے پناہ گزین خیمے سے ۲۰؍ہزارفلسطینیوں کو جبراً بے گھر کیا

فلسطینی ورثہ کی حفاظت میں اہم کردار

مشرقی یروشلم میں واقع کتابوں کی دکان "ایجوکیشنل بک شاپ" کو ۱۹۸۴ء میں منا خاندان کے سرپرست احمد منا نے قائم کیا تھا۔ آج اسے محمود منا اور ان کے بھتیجے احمد منا سنبھالتے ہیں۔ ایجوکیشنل بک شاپ کے قیام سے قبل، یروشلم میں انگریزی کتابوں کی کوئی مناسب دکان نہیں تھی اور انگریزی کتابیں صرف اسرائیلی کتابوں کی دکانوں میں دستیاب تھیں جو بنیادی طور پر اسرائیلی نقطہ نظر کو پیش کرتی تھیں۔ ان کتابوں کی دکانوں میں مستشرقین نقطہ نظر کے حامل برطانوی اور امریکی مصنفین کی اسرائیل کے متعلق لکھی کتابیں فروخت کی جاتی تھیں جس میں فلسطینی نقطہ نظر بڑی حد تک غائب تھا۔ 

ایجوکیشنل بک شاپ میں عربی اور انگریزی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ دکان مشرق وسطیٰ کی تہذیب، تاریخ اور ادب پر توجہ مرکوز کرنے والے فلسطینی تاریخی ورثہ اور ثقافت کے تحفظ کیلئے اہم تسلیم کی جاتی ہے۔ ایجوکیشنل بک شاپ میں عربی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور ہسپانوی سمیت کئی زبانوں میں اسرائیل-فلسطین تنازع پر کتابوں کی وسیع اقسام مل جاتی ہیں نیز عبرانی مصنفین کا ترجمہ شدہ ادب بھی دستیاب ہیں۔ یہ انگریزی کتابوں کی دکان ثقافتی اور ادبی تقریبات مثلاً مطالعہ، نمائشوں اور مذاکروں کی میزبانی بھی کرتی ہے جو فلسطینی ثقافت اور شناخت کو تقویت دیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK