Updated: May 29, 2024, 4:12 PM IST
| New Delhi
منماڑ اور بھساول میں جی آر پی نے ۵؍ مدرسہ کے اساتذہ کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا ہے جن کے خلاف گزشتہ سال مئی میں ۵۹؍ بچوں کی اسمگلنگ کے معاملے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ۴؍ ہفتوں کی جیل ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق ایف آئی آر غلطی سے درج کی گئی تھی جبکہ بچوں کی کوئی اسمگلنگ نہیں ہوئی تھی۔
منماڑاور بھساول میں گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) نے گزشتہ سال مئی میں گرفتار مدرسہ کے پانچ اساتذہ کے خلاف دو مجرمانہ مقدمات ختم کر دیئے ہیںجنہیں ۵۹؍ بچوں کی بہار سے مہاراشٹر اسمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ۴؍ ہفتوں کیلئے جیل بھیجا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: مختلف شہروں میں اسرائیل مخالف مظاہرے
جی آر پی حکام نے بتایا کہ پولیس کے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعدکہ ایف آئی آر’’غلطی سے درج کی گئی تھی‘‘ امسال مارچ میں مقدمات بند کر دیئے گئے تھے۔اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ریلوے مہاراشٹر پردنیا سراودے نے بھی اس معاملے میں اس تبدیلی کی تصدیق کی ہے۔
معاملہ کیا تھا؟
کیس کے مطابق گزشتہ سال ۳۰؍ مئی کو بہار کے اراریا ضلع سے ۸؍ سال تا ۱۷؍ کی عمر کے ۵۹؍ بچے پونے سے سانگلی کی ٹرین میں سفر کر رہے تھے کیونکہ انہیں مدرسے میں اسلامیات کی پڑھائی کرنی تھی۔ دہلی میں جوینائل جسٹس بورڈ اور ریلوے بورڈ سے منسلک ایک سینئر افسر کی اطلاع پر عمل کرتے ہوئے، ریلوے پروٹیکشن فورس(آر پی ایف) نے ایک این جی او کے ساتھ مل کر بھوساول اور منماڈ اسٹیشنوں پر بچوں کو ’’بچایا تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: مدھیہ پردیش: دلت خاتون انصاف کی جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ ہار گئی
پولیس حکام کو یہ شک تھا کہ انہیں بچہ مزدوری کے سلسلے میں ان بچوں کی ٹریفکنگ کی گئی ہے اس لئے ان بچوں کو ناشک اور بھساول کے شیلٹرز ہوم میں ۱۲؍ دن تک رکھا گیا۔ بچوں کے والدین نے بچوں کی واپسی کی مانگ کی جس کے بعد ناسک ضلعی انتظامیہ نے انہیں واپس بہار بھیج دیا تھا۔
آر پی ایف نے دعویٰ کیا کہ بچوں کے ساتھ موجود مدرسہ کے ۵؍ نمائندوں نے اپنے سفر کا کافی ثبوت فراہم نہیں کیا تھا جس کے سبب ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۴؍ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔جنہیں حراست میں لیا گیا تھا ان میں سنگالی کے رہائشی محمد انجور عالم محمدسید علی(۳۴؍)، اراریا کے رہائشی صدام حسین صدیقی(۲۳؍)، نومان عالم صدیقی(۲۸؍)، اعجاز ضیا عبدل صدیقی(۴۰؍) اور محمد شاہ نواز ہارون (۲۲؍) شامل ہیں۔ ان پر انسانی اسمنگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
تفتیش کے دوران جی آر پی کے حکام نے اراریا کا دورہ کیا تھا اور ملزمین اور بچوں کی اسناد کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے اس مدرسہ کا بھی دورہ کیا تھا جہاں بچوں کو لے جایا جا رہا تھا۔جی آر پی کے انسپکٹر شرد جوگ دندنے کہا کہ ’’مناسب تفتیش کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ کوئی انسانی اسمگلنگ نہیں ہوئی اور ہم نے عدالت کے سامنے ’’سی سمری‘‘ حتمی رپورٹ داخل کی ہے۔بھساول جی آر پی کے انسپکٹر وجےگھیراڈے نے بھی کہاکہ انہوں نے بھی حتمی رپورٹ داخل کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اترپردیش: بی جے پی امیدوار کرن بھوشن سنگھ کے قافلے میں کار سے ٹکرانے سے ۲؍ افراد ہلاک، ایک زخمی
اس ضمن میں محمد شاہ نوا ز ہارون نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اگر چہ لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ مقدمات جھوٹے ہیں لیکن ایف آئی آر اور حراست نے ان کے تاثر بدل دیئے جس سے ہمیں سماجی اور نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حادثے کے بعد میرے اہل خانہ پریشان اور خوفزدہ تھے اور وہ مجھ سے کہہ رہےتھے کہ میں ملازمت کیلئے سعودی عربیہ جانے کا اپنا فیصلہ تبدیل کر لوں۔
صدام حسین نے بتایا کہ ’’میرے پاس تمام بچوں کے آدھار کارڈ تھے اور میں نے پولیس سے یہ بھی کہا کہ ہم ان کے والدین سے بذریعہ ویڈیو کال پولیس کی بات کرواتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے مقامی سرپنچ سے اتھاریٹی لیٹر کی مانگ کی جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ ۲۸؍ جیل میں رہنے کے بعد ہمیں ضمانت دی گئی تھی۔ میرے بچے خوفزدہ تھے اور انہوں نے کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایا تھا۔‘‘