Updated: June 02, 2024, 7:37 PM IST
| Washington
اسرائیل حماس جنگ کے پس منظر میں ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ نامی امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ دی نیویارک ٹائمز نے صحافتی ’’بد دیانتی‘‘ کرتے ہوئے اپنے صحافیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس جنگ کا احاطہ کرنے کے دوران ’نسل کشی، ’مقبوضہ علاقے‘ اور ’پناہ گزین کیمپ‘ جیسے اسرائیل مخالف الفاظ استعمال نہ کریں۔ اس فہرست میں ’’فلسطین مخالف‘‘ اور ’’اسرائیل حامی‘‘ درجنوں الفاظ ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے دی انٹرسیپٹ نے نیویارک ٹائمز کا ایک داخلی میموحاصل کر لیا ہے جس میں، غزہ پٹی پر اسرائیل کی جنگ کے کوریج کرنے والے صحافیوں کو مشورہ دیاگیا تھا کہ وہ نسل کشی اورنسلی صفائی جیسی اصطلاحات استعمال کرنے سے گریز کریں۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو مقبوضہ علاقہ اورمہاجرین کیمپ جیسی اصطلاحات اور فقروں سے گریز کرنا چاہئے۔دی انٹرسیپٹ کے مطابق بین الاقوامی ایڈیٹر فلپ پین، اسٹینڈرڈ ایڈیٹر سوسن ویسلنگ اور ان کے نائبین کی طرف سے تحریر کردہ، میمو شرائط اور دیگر مسائل کے بارے میں رہنمائی پیش کرتا ہے جن کا سامناہم اکتوبر میں تنازعہ کے آغاز کے بعد سےکر رہے ہیں ۔
خبر رساں ادارے کا دعویٰ ہے کہ یہ دستاویز پہلی بار نومبر میں بھیجی گئی تھی اور اسے غزہ پر ۶؍ ماہ سے جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران ہر ماہ اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں ۱۰؍ ہزار خواتین جاں بحق اور ۱۹؍ ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں: اقوام متحدہ
ٹائمز کے ترجمان چارلی ا سٹیڈلینڈر کا کہنا ہے کہ خبروں کوترتیب دیتے وقت اس میں درستگی، مستقل مزاجی اور اہمیت کو یقینی بنانے کیلئے اس طرح کی رہنمائی جاری کرنا معمول کا عمل ہے۔
حالانکہ دی انٹرسیپٹ نے کہا کہ متعدد ملازمین نے دعویٰ کیا کہ نیو یارک ٹائمزواقعات پر اسرائیل کے بیانیے کو ترجیح دے رہا ہے۔
نیوز روم میں ایک شخص، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’’اگرچہ نیوز کمپنیوں کیلئے اس طرز کے رہنما اصول طے کرنا غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے تشدد پر انوکھے معیارات کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: گوگل ملازمین کا کمپنی کا اسرائیل کے ساتھ کام کرنے کے خلاف دھرنا، پولیس حراست میں
نیویارک ٹائمز کی جانب سے ترتیب اور تقسیم شدہ میمو الفاظ اور تاثرات کی وسیع اقسام کو بیان کرتا ہے۔
صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’’ذبح، قتل عام جیسے الفاظ استعمال کرنے سے پہلے سوچیں۔‘‘
میمو ان سفارشات کو جذباتی زبان سے بچنے کے ایک ذریعہ کے طور پر پیش کرتا ہے، تاہم، انٹر سیپٹ نے اخبار کے دوہرے معیارکی جانب بھی توجہ دلائی۔
دی انٹرسیپٹ کے مطابق، اس طرح کی زبان فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلیوں کے خلاف حملوں کو بیان کرنے کیلئے بار بار استعمال کی گئی ہے اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر قتل کے معاملے میں تقریباً کبھی استعمال نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: اداکارہ اونتیکا وندناپو نے ساؤتھ ایشین پرسن آف دی ایئر ایوارڈ غزہ کے نام کیا
جہاں میمو میں صحافیوں کو `دہشت گرد الفاظ استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہیں انہیں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ’’۷؍اکتوبر کے حملے کا ذکر کرتے ہوئےلفظ ’’لڑاکا‘‘ سے گریز کریں۔
اس کے علاوہ صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ ’’ اسرائیل کے خلاف وہ لفظ ’’نسل کشی ‘‘ صرف قانونی تناظر میں استعمال کریں اوراگر کوئی اس طرح کا الزام لگا رہا ہے تو ہمیں تفصیلات کیلئے دباؤ ڈالنا چاہئے یا مناسب سیاق و سباق فراہم کرنا چاہئے۔
صحافیوں کو فلسطین کی اصطلاح بھی ناگزیر معاملات میں استعمال کر نے کی ہدایت دی گئی ہے، جیسے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ایک غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دیا، یا فلسطین کی تاریخ کے حوالے کے وقت۔
قبل ازیں جنوری میں دی انٹرسیپٹ نے تجزیہ شائع کیا تھا جس کے مطابق نیویارک ٹائمز اور دیگر بڑے اخبارات نے غزہ پر جنگ کی نشریات میں اسرائیل کی بہت زیادہ حمایت کی تھی۔