• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہیٹی: مجرم گینگ میں شامل ہونے والے بچوں کی تعداد میں ۷۰ فیصد اضافہ: یونیسیف

Updated: November 25, 2024, 8:23 PM IST | New York

ہیٹی میں یونیسف کی نمائندہ نارائن نے ایک فون انٹرویو میں بتایا کہ نوجوان لڑکوں کو اکثر مخبر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انہیں خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔

Photo: X
تصویر: ایکس

پیر کو جاری کردہ یونیسیف کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ہیٹی میں سرگرم مسلح گروپس، غیر معمولی تعداد میں بچوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران ان گروپس میں بھرتی کئے گئے نابالغوں کی تعداد میں ۷۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اس وقت تشدد زدہ ملک میں مسلح گیںگز کے تمام ممبران میں ۳۰ سے ۵۰ فیصد نابالغ ہیں۔ ہیٹی میں یونیسیف کی نمائندہ گیتا نارائن نے اس رجحان کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔ ان کے مطابق، سیاسی عدم استحکام کے درمیان، غربت اور تشدد کے بڑھنے کے باعث یہ اضافہ ہوا ہے۔ نارائن نے ہیٹی سے ایک فون انٹرویو میں بتایا کہ نوجوان لڑکوں کو اکثر مخبر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انہیں خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ کچھ بچوں کو اسلحہ دیا جاتا ہے اور انہیں حملوں میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، لڑکیوں کو گینگ ممبران کے لئے کھانا پکانے، صاف صفائی اور یہاں تک کہ نام نہاد "بیویاں" بننے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: لبنان: اسرائیلی بمباری سے ایک فوجی ہلاک، لبنان سے۱۶۵؍ راکٹ داغے گئے

آسان شکار 
کیریبیئن ملک ہیٹی میں ۶۰ فیصد سے زائد آبادی یومیہ ۴ امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر زندگی بسر کرتی ہے، لاکھوں شہری بھوک سے مررہے ہیں یا بھوک کے قریب ہیں۔ ان حالات میں بچوں کو گینگ میں بھرتی کرنا اکثرآسان ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق، گینگ میں شامل نابالغوں کو ہر ہفتہ ۳۳ امریکی ڈالر ادا کئے جاتے ہیں جبکہ گینگ آپریشن میں پہلے مہینہ میں ہزاروں ڈالر ادا کئے جاتے ہیں۔نارائن نے مزید بتایا کہ اگر بچے کسی گینگ میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں، تو بندوق بردار اکثر انہیں یا ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیتے ہیں یا انہیں اغوا کرلیتے ہیں۔ یونیسیف نے بتایا کہ بچوں کو گینگ میں بھرتی کرنے کی وجہ سے انہیں اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے جاسوس کہلانے یا تشدد میں مارے جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سنبھل : مسجد کے سروے پر احتجاج، پولیس فائرنگ، ۴؍ جاں بحق

خطرے میں اضافہ 
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق، سب سے زیادہ بچوں کو بھرتی کرنے والے گروہ 5 Segond، Brooklyn، Kraze Barye، Grand Ravine اور Terre Noire ہیں۔ عام طور پر، نئے بھرتی ہوئے لڑکوں کو کھانا خریدنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ انہیں "دوستوں کو خریدنے" کے لئے بھی پیسے دیئے جاتے ہیں۔ اس دوران، مجرم گیںگز ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ پھر، وہ تصادم میں حصہ لیتے ہیں اور اگر وہ کسی کو قتل کرتے ہیں تو ترقی دی جاتی ہے۔ گینگ میں دو یا تین سال رہنے کے بعد، اگر وہ ثابت کردیں کہ وہ جاسوس نہیں ہیں، تو وہ گروہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہیٹی میں گینگ تشدد کے باعث ۷ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں، جن میں ایک اندازے کے مطابق، ۳؍ لاکھ ۶۵ ہزار نابالغ شامل ہیں۔ بیشتر بے گھر آبادی، عارضی پناہ گاہوں میں رہتی ہے جہاں انہیں مسلح گینگ کے ذریعہ جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی پیر کو شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق، ہیٹی میں جرائم پیشہ گروپس، نابالغ لڑکیوں اور خواتین کو ہولناک جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے نوٹ کیا کہ اگرچہ اس سال مسلح گروپس کے درمیان لڑائی میں کمی آئی ہے، لیکن  لڑکیوں، پولیس اور اہم انفراسٹرکچر پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلح گینگز، اکثر حریف علاقوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے جنسی تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ہماچل پردیش: کشمیری تاجروں کو ہراساں کرکے`جئے شری رام` کا نعرہ لگانے کا مطالبہ

`انہیں بچانا اتنا آسان نہیں ہے` 
ماہرین کے مطابق، مجرم گینگز آٹھ سال سے کم عمر کے بچوں کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔ بچے جتنا زیادہ وقت کسی مسلح گروپ کے ساتھ گزارتے ہیں، انہیں بچانا اور معاشرے میں دوبارہ شامل کرنا اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ نارائن نے کہا کہ یہ بچے کی نفسیاتی نشوونما کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بچے کئی طریقوں سے گینگ چھوڑ دیتے ہیں: کچھ اپنی مرضی سے چھوڑ دیتے ہیں، کچھ فرار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات سماجی کارکنان انہیں ڈھونڈ کر ایسے مراکز میں داخل کرتے ہیں جہاں ضرورت پڑنے پر انہیں طبی دیکھ بھال کے ساتھ نفسیاتی مدد بھی ملتی ہے۔ نارائن نے مزید کہا کہ یہ ایک عبوری دور ہے۔ یہ سب کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK